طالبان کے سپریم لیڈر ملاعمر کی ہلاکت کی خبریں گردش کررہی ہیں تاہم طالبان نے اس خبر کی تصدیق نہیں کی ہے۔
ملاعمر 2001ءمیں افغانستان میں امریکی حملے کے بعد سے روپوش تھے جبکہ ان کے سر کی قیمت 10ملین ڈالر مقرر تھی۔
برطانوی خبر رساں ادارے نے افغان حکام اور انٹلی جنس ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان رہنماء ملا عمر تین سال قبل افغانستان میں مارے جاچکے ہیں۔
بی بی سی کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان کے ترجمان نے اس معاملے پر ان سے رابطہ کیا ہے اور جلد ہی اس حوالے سے حتمی اعلامیہ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یادرہے کہ اس سے قبل طالبان سے علیحدہ ہونیوالے گروپ محاظ فدائی نے کہاتھاکہ ملاعمر دوسال قبل تنظیم کی اندرونی لڑائی کے دوران مارے گئے تھے تاہم عید الفطرکے موقع پر طالبان نے ایک پیغام شائع کیاتھا جس کے مطابق ملاعمر نے مذاکرات کی توثیق کردی جبکہ اس سے قبل اپریل میں کہاتھاکہ سوانح حیات شائع کی تھی اور کہاکہ ملاعمر زندہ اور خیریت سے ہیں۔
ملاعمر کی ہلاکت کی خبرایک ایسے وقت پرنشرہوئی جب افغان طالبان اورحکومت کے درمیان امن مذاکرات کا دوسرا دورجمعہ کو متوقع ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق افغان حکام نے بھی ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے اور افغانستان کے نائب صدر اس معاملے میں چکھ دیر میں پریس کانفرنس کریں گے۔
ملاعمر ایک گاﺅں میں پیداہوئے اور مختصر سی دینی تعلیم حاصل کی، مجاہدین کے ہمراہ سویت یونین کے خلاف لڑے اور 1994ءمیں طالبان کی تشکیل میں مدد دی، ایک رپورٹ کے مطابق وہ شادی شدہ تھے اوران کے دوبیٹے ہیں۔