آج اردو زبان کے قادرالکلام شاعرمحسن نقوی کی برسی ہے۔ محسن نقوی غزل گواورسلام گو شاعر ہیں آپ کے کلام میں انسانی رویوں کے رنگ بہت خوبصورتی سے جھلکتے ہیں۔
محسن نقوی پانچ مئی 1947 کو پیدا ہوئے ان کاتعلق ڈیرہ غازی خان سے تھا۔ان کا مکمل نام سید غلام عباس نقوی تھا شعر کہنے کے لئے محسن تلفظ کرتے تھے لہذا بحیثیت شاعر ’محسن نقوی‘کے نام سے مشہور ہوئے۔
انہوں نے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے ایم اے اردو کیا تھا اسی دوران ان کا پہلا مجموعہٗ کلام منظرِعام پرآیا۔
بعد ازاں وہ لاہورمنتقل ہوگئے اورادبی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے جس کے سبب انہیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔
اِک ”جلوہ“ تھا، سو گُم تھا حجاباتِ عدم میں
اِک ”عکس“ تھا، سو منتظرِ چشمِ یقیں تھا
ان کی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویے، واقعۂ کربلا اوردنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے۔
سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ
ان کے کئی مجموعہ کلام شائع ہوچکے ہیں جن میں بندِ قبا، برگِ صحرا، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، خیمہ جاں، موجِ ادراک اور فراتِ فکر زیادہ مقبول ہیں۔
غمِ حسین میں اک اشک کی ضرورت ہے
پھر اپنی آنکھ کو، کوثر کا جام کہنا ہے
لاہورمیں قیام کے دوران محسن نقوی اک خطبیب کے روپ میں سامنے آئے۔ مجالس میں ذکرِاہلبیتؑ اورواقعاتِ کربلا کے ساتھ ساتھ اہلبیتِؑ اطہار کی شان میں کی گئی شاعری بیان کیا کرتے تھے اوراسی سبب سے 15 جنوری 1996ء کو ایک مذہبی انتہاپسند دہشت گرد تنظیم کے دہشت گردوں نےانہوں گھات لگا کرشہید کردیا گیا۔
یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے
سرسناں، کوئی سرسجاؤ! اُداس لوگو