اسلام آباد : سپریم کورٹ نے اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں سوال اٹھایا ہے کہ کیا پارلیمنٹ کی منظور کردہ ترامیم کو کالعدم قرار دینے کیلئے بنیادی ڈھانچے کو وجہ بنایا جاسکتا ہے ؟
تحصیل دار اور سیکرٹری کی تقرری میں پارلیمنٹ کا کوئی کردار نہیں تو ججوں کی تقرری میں کیوں ہے ؟ کیس کی سماعت چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سترہ رکنی لارجر بینچ نے کی تو مختلف بار ایسوسی ایشنز کے وکیل حامد خان نے ججز تقرری برائے پارلیمانی کمیٹی کے خلاف اپنے دلائل جاری رکھے ۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آدھے گھنٹے کی بحث میں اٹھارویں ترمیم منظور کر لی گئی ۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا بنیادی ڈھانچہ کسی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کیلئے کافی ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آنے والی نسل سابقہ نسل کی پیروی کرنے کی پابند نہیں ہے ،سیاست دانوں پر اتنا عدم اعتماد ظاہر نہیں کرنا چاہیئے ۔
ایک سیاست دان نے یہ ملک بنایا ہے ،سیاست دانوں نے آئین دیا ،سیاست دانوں نے ملک چلانے کا نظام دیا ۔ایڈوکیٹ حامد خان نے کہا کہ آئین میں حقوق کا پورا پیراگراف موجود ہے لیکن اگر ان حقوق کو نافذ کرنے کا طریقہ کار ہی نہ ہو تو ایسے حقوق کا کیا فائدہ ؟۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں جوڈیشل ونگ بنائے جانے کا راستہ ہم نے روک دیا ہے ۔دوران سماعت وطن پارٹی کے وکیل بیرسٹرظفر اللہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ انیسویں ترمیم عدالتی کے دباﺅ پر ہوئی ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم نے صرف سفارشات دی تھیں ۔فاضل وکیل نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کیس میں دی گئی تمام سفارشات غیر قانونی تھیں ۔بعد ازاں مزید سماعت آج بدھ تک ملتوی کر دی جبکہ حامد خان آج بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔