اسرائیلی انٹیلی جنس کا اندازہ ہے کہ 51 اسیران اب بھی زندہ ہیں۔
اسرائیل ہیوم نے انٹیلی جنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں حماس کے زیرحراست 101 قیدیوں میں سے 51 اب بھی زندہ ہیں۔
نیتن یاہو کی انتظامیہ پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ بقیہ اسیروں کی رہائی کے لیے معاہدہ کر لے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو 251 افراد کو یرغمال بنایا تھا اور تقریباً نصف قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔
دوسرے ابھی بھی قید میں ہیں جن میں سے کچھ کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ حماس متعدد بار اعلان کر چکی ہے کہ کچھ اسیران اسرائیلی حملوں میں مارے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ حماس عہدیدار ابوزہری کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ بندی کی تجاویز ہمارے مطالبات کے برعکس ہیں، قیدیوں کی رہائی کے بعد اسرائیلی اپنی بمباری مزید وحشیانہ کر دے گا۔
انہوں نے کہا کہ گروپ کا مقصد غزہ کے لوگوں کے خلاف "خاتمے کی جنگ کو روکنا ہے” اور اس لیے وہ مستقل جنگ بندی سے کم کسی چیز کو قبول نہیں کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ حماس کا خیال ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کا معاہدہ نہیں چاہتا لیکن جنگ کے خاتمے کے بغیر قیدیوں کی واپسی کے لیے کوشاں ہے جسے گروپ مسترد کرتا ہے۔
ابو زہری نے مزید کہا کہ امریکہ حقیقی معاہدے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
اسرائیلی وزیرخزانہ نے کہا ہے کہ جنگ بندی ہو بھی جاتی ہے تو اسرائیلی فوج کئی برسوں تک غزہ میں رہےگی، غزہ پر اسرائیل کا دوبارہ قبضہ ہونا چاہیے۔
اسرائیلی وزیرخزانہ نے کہا کہ اسرائیلی فوج کو کئی سالوں تک غزہ کی پٹی میں موجود رہنا چاہیے اسرائیلی فوج جنگ کے مقاصد کے حصول کیلئے غزہ میں موجود رہےگی۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں طویل مدت تک آپریشنل سیکیورٹی کنٹرول برقرار رکھنا ہو گا میرے اندازے کے مطابق رواں سال کے آخر تک سیاسی سمجھوتہ ہو جائے گا۔