رمضان المبارک اپنے دامن میں جہاں کئی قسم کے فیضان و برکات لے کرآتا ہے وہیں یہ ہماری اخلاقی تربیت کا بھی مہینہ ہے اوررمضان ہم پرکچھ خصوصی پابندیاں لگاتا ہے جن کی پابندی اگر ہم پورا سال کرلیں تو ہماری شخصیت نکھرجاتی ہے۔ ان میں سے ایک برائی جس سے روزہ ہمیں روکتا ہے گالم گلوچ ہے جس سے ہماری شخصیت کا برا تاثرابھرتا ہے۔
گالی دینا یا کسی کو برا بھلا کہنا اخلاقِ رزیلہ میں شمارہوتا ہے۔ دنیا میں بہت سارے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو بات بات پراپنی زبانوں کو گالیوں سے گندا کرتے ہیں۔ اکثرلوگوں کا تو گالیوں کے بغیر کلام ہی مکمل نہیں ہوتا لیکن ایک باوقار اوربردبار شخص ہمیشہ اس سے اپنی زبان کو محفوظ رکھتا ہے۔
قرآن مجید میں ہے
لاَّ یُحِبُّ اللّہُ الْجَہْرَ بِالسُّوٓئ ِ مِنَ الْقَوْلِ ِٓلاَّ مَن ظُلِمَ وَکَانَ اللّہُ سَمِیْعاً عَلِیْماً۔ِٓان تُبْدُواْ خَیْراً أَوْ تُخْفُوہُ أَوْ تَعْفُواْ عَن سُوْٓئٍ فَاِنَّ اللّہَ کَانَ عَفُوّاً قَدِیْرا۔
سورۃ النساء – 148،149
اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پرزبان کھولے، الّا یہ کہ کسی پرظلم کیا گیا ہو اوراللہ سب کچھ سننے اورجاننے والا ہے۔ ﴿مظلوم ہونے کی صورت میں اگرچہ تم کو جواب دینے کا حق ہے﴾ لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کیے جاؤ، یا برائی سے درگزر کرو پس یقیناً اللہ تعالٰی پوری معافی کرنے والا ہے اور پوری قدرت والا ہے۔”
احادیثِ مبارکہ میں ارشاد ہے کہ
حضرت عبداللہ بن مسعودؒ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَ قِتَالُہ کُفْر
صحیح مسلم – 128
کسی مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے
ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے گالی گلوچ کو کبائر میں شمار کیا ہے۔
عَنْ عَمْرِوبْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم قَال:َ مِنَ الْکَبَائِرَ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَیْہِ۔ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَھَلْ یَشْتِمُ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ؟ قَالَ، نَعَمْ یَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَیَسُّبُ أَبَاہُ وَیَسُبُّ أُمَّہ، فَیَسُبُّ أُمَّہ،۔
صحیح بخاری-5563، ترمذی -1962
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولصلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا آدمی کا اپنے والدین کو سب و شتم کرنا بڑے گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔
صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی اپنے والدین کو گالی دے؟
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ ﴿وہ اس طرح کہ﴾ ایک شخص کسی کے والد کو گالی دیتا ہے جواب میں وہ بھی پہلے شخص کے والد کو گالی دیتا ہے اور ساتھ میں اس کی ماں کو گالی دیتا ہے اور وہ بھی اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو سمجھا جائے گا کہ اس نے خود اپنے والدین کو گالی دے دی۔
گالیں بکنے سے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے گالم گلوچ کرنے والوں کے بارے میں وعید فرمائی ہے اوراسے مفلس قراردیا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ فَقَالَ إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَکَاةٍ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَکَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَکَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَی هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَی مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ۔
صحیح مسلم – 6483
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے
رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟
صحابہ نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ آدمی ہے کہ جس کے پاس مال اسباب نہ ہو۔
آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن میری امت کا مفلس وہ آدمی ہو گا کہ جو نماز روزے زکوة و غیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی اور کسی پر تہمت لگائی ہو گی اور کسی کا مال کھایا ہو گا اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا تو ان سب لوگوں کو اس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی اوراگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پرڈال دئے جائیں گے پھر اس آدمی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔-"