تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

اعتزاز حسن نے خودکش بمبار سے مذاکرات کیوں نہیں کئے

تحریر: سید فواد رضا

پاکستان گذشتہ تیرہ سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان بھی پاکستان نے ہی برداشت کیا ہے جس میں جانی نقصان کا بے پناہ ہے مختلف اعداد و شمار کے مطابق اب تک 50 ہزار عام شہری اور تقریباً 10 ہزار فوجی اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔

ایک منٹ ٹھہرئیے ! کیا یہ سب افراد واقعی شہید ہیں؟ ہمارے ملک میں کچھ لوگوں نے طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دےدیا اس بات پر کافی لے دے ہوئی  لیکن وہ افراد اپنے موقف پر ڈٹے رہے دوسری جانب طالبان کے مخالف بھی اپنی بات پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں کہ طالبان سے آہنی ہاتھ سے نپٹا جائے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جمعرات کو ہنگو میں ایک پندرہ سالہ لڑکے اعتزاز حسن نے جرات اور بہادری کی شاندار مثال قائم کرتے ایک خودکش حملہ کو اسوقت دبوچ لیا جب وہ ہنگو میں واقع ابراہیم زئی اسکول پر حملہ کرنے جارہا تھا جہاں اسوقت دو ہزار کے لگ بھگ لڑکے اسمبلی کے لئے جمع تھے۔

شہید اعتزاز حسن کا دوست قیصر حسین جو اس واقعے کا عینی شاہد  ہے بتاتا ہے کہ حملہ آور جو اسکول کے یونیفارم میں ملبوس تھا  اس نے ہم سے اسکول  کا پتہ پوچھا جس پر ہمیں اسپر شک گزرا اور جب اعتزاز نے آگے بڑھ کر اسے روکنے کی کوشش کی تو اسنے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

اعتزاز حسن کی حوصلہ مندانہ شہادت کی خبر نشر ہونے کی دیر تھی کہ پورے ملک سے اسکا ردعمل آنے لگا اور قوم نے اپنے اس بہادر فرزند کے لئے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر کا مطالبہ تک کردیا لیکن سوال تو یہ ہے کہ اعتزاز کے ذہن میں وہ کیا سوچ تھی کہ جسکے زیر ِ اثراس نے حملہ آور کو دبوچ لیا اسے تو چائیے تھا کہ وہ وہی راستہ اختیار کرتا جو ہمارے ملک کے ذہین اور باصلاحیت سیاستدانوں نے تجویز کیا ہے یعنی مذاکرات کرتا ، حملہ آور سے پوچھتا کہ تمھارے مطالبات کیا ہیں ؟ کن شرائط پر تم یہ دھماکہ کرنے سے باز آجاو گے لیکن نہیں! اسنے وہی کیا جو جبلتِ انسانی کا تقا ضا ہے یعنی دفاعی حملہ۔

وہ حملہ آور جو اسکے دو ہزار ہم مکتبوں کی جان لینے جارہا تھا اس نے آنکھیں بند کر کے اسے جانے نہیں دیا کہ چلو اسکے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہوگی یا اسکا کوئی عزیز کسی ڈرون حملے میں مارا گیا ہوگا لہذا یہ بھی خودکش حملہ کرکے اپنے انتقام کی آگ کو سرد کرلے بلکہ اعتزاز نے اسکو روک کر اپنا قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔

میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس واقعے کو بے پناہ شہرت ملی اور صدر مملکت ، وزیر اعظم اور آرمی چیف نے اسکو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔

راسف اس بات پر ہے کہ ہمارے ملک کا ایک پندرہ سالہ لڑکا تو یہ بات جانتا ہے کہ جب آگ اپنے گھر تک پہنچ جاتی ہے تو پھرصرف باتیں نہیں کی جاتیں بلکہ آگ بجائی جاتی ہے لیکن ہمارے کچھ ذہین سیاستدان اور دفاعی امور میں خود کو عقل ِ کل سمجھنے والے تجزیہ نگار ابھی بھی مذاکرات کی بین بجا کر سانپ کو رام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

مذاکرات کے حامی تمام افراد سے میری یہ دست بستہ التماس ہے کہ مذاکرات کرنے سے پہلے صرف ایک بار دہشت گردوں کی بربریت کے شکار شہید کے اہلِ خانہ سے بھی ملاقات کرلیں اوراگر ان لوگوں کے چہرے پر آپکو طالبان کا خوف نظر آئے تو پھر بیشک مذاکرات کریں لیکن اگر ان لوگوں کے حوصلے بلند ہوں تو پھر آپ اپنے اندرونی خوف اور ذاتی مفادات کو قومی مفادات کا نقاب نا پہنائیں کیونکہ پاکستانی قوم کے بچے بھی اب اس بات سےاچھی طرح واقف ہیں کہ ان وحشی درندوں کو اب بزورِ قوت روکنا ہوگا اوراگرایسا نا ہوتا تو اعتزاز حسن بھی شاید شہادت کے بجائے مذاکرات کی راہ اختیار کرتا 

Comments

- Advertisement -
فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں