تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

بچوں سے مشقت کا عالمی دن: 10 سالہ ایوب اسکول جانے کے بجائے تندورپرکام کرتا ہے

بچوں سے مشقت کے خلاف عالمی دن کے موقع پر تصویر کا ایک تلخ اور حقیقی پہلو یہ بھی ہے کہ کراچی میں مقیم 10 سالہ محمد ایوب کو اسکول جانے کی عمرمیں ایک تندور پرمشقت کرنا پڑتی ہے۔

آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 11 سیکشن 3 کے تحت ملک میں 14 سال سے کم عمربچے کسی فیکٹری، کان یا ایسی جگہ ملازمت نہیں کرسکتے جو ان کے لئے جسمانی اعتبار سے خطرناک ثابت ہو۔

محمود ایوب تندور پرآٹا گوندھنے، اس کا پیڑا بنانے اورپھراسے بیلنے کے فرائض انجام دیتا ہے اس سارے عمل سے گزرنے کے بعد نان روٹی بھٹی میں جاتی ہے۔

محمد ایوب بمشکل 10 سال کا ہے پاکستانکے سب سے ڑے شہر میں واقع ایک نان بائی کی دکان میں انتہائی سخت مشقت پرمعمور ہے۔ جسامت میں مختصر ایوب بولنے سے بھی قاصرہے اور اپنی حالتِ زار کھل کر کسی سے بیان بھی نہیں کرسکتا۔ ایک کمسن بچے کی حیثیت سے آپ اس سے امید رکھیں گے کہ وہ اپنی حالتِ زار اور کام کی سخت نوعیت کا شکوہ کرے گا لیکن شخت جو ایوب زبان پر شکوہ لائے بغیر اپنے کام میں مشغول رہتا ہے اور وہ نہیں جانتا ہے کہ بچوں سے مشقت لینے کے خلاف عالمی دن کیاہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھرمیں ہرسال بچوں سے جبری مشقت کا عالمی دن روایتی جوش وخروش سے منایا جاتا ہے تاہم قوانین کی موجودگی کے باوجود ملک میں چائلڈ لیبرکی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق دنیا بھرمیں ایک اندازے کے مطابق 168ملین بچے مشقت کرنے پر مجبورہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جن کی عمر18 سال سے کم ہے۔ پاکستان کا شماربدقسمتی سے دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں چائلڈ لیبر کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم ’’سوسائٹی فاردی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چلڈرن‘‘ کے مطابق ملک بھرمیں تقریبا ایک کروڑ 2 لاکھ بچے محنت مزدوری کرنے پرمجبور ہیں۔ ان میں 60 لاکھ بچے 10 سال سے بھی کم عمر کے ہیں۔

پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کا حتمی اندازہ لگانا مشکل ہے جو مختلف سیکٹرزمیں مشقت کرنے پرمجبور ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو سرکاری اعداد و شمار موجود ہیں وہ 18 برس قبل اکھٹے کیے گئے تھے یعنی سرکاری سطح پرآخری بار سن 1996 میں سروے کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق ملک کے 40 ملین بچوں میں سے تقریباً 3.3ملین بچے مشقت کرنے پرمجبور تھے۔ ان میں 73 فیصد تعداد لڑکوں کی جبکہ 27 فیصد تعداد لڑکیوں کی تھی۔

سب سے زیادہ چائلڈ لیبر کا شرح صوبہ پنجاب میں پائی گئی، جہاں 1.9 ملین بچے چائلڈ لیبر کے زمرے میں آئے۔ صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) میں یہ تعداد ایک ملین، صوبہ سندھ میں 2 لاکھ 98 ہزار جبکہ بلوچستان میں 14ہزار بچوں کی تعداد ریکارڈ کی گئی۔

ماہرین کے مطابق ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی وجہ عام طور پر بڑھتی ہوئی صرف غربت اور مہنگائی کو ٹہرایا جاتا ہے جو کہ ان کی رائے میں درست نہیں، ’’جو بچے اور بچیاں کام کرتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے خاندانوں کو مکمل طور پر معاشی سپورٹ نہیں کر رہے ہوتے۔ بلکہ جو کچھ وہ کمائی کر رہے ہوتے ہیں، وہ ان کی اپنی ماہانہ کمائی ہوتی ہے۔ لوگ چائلڈ لیبر کو اس لیے بھی کام پر رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سستی ہوتی ہے۔ تو اگر بچوں کو وہ ہزار پانچ سو مہینہ بھی دیتے ہیں تو آپ یہ نہیں کہ سکتے کہ اس چھوٹی سی رقم سے پورے خاندان کا گزارا ہو گا۔ ماہرین کے مطابق ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی وجہ بہتر تعلم و تربیت کا فقدان ہے۔‘‘

پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف قانون موجود ہیں تاہم یہ ناکافی اورغیر موثر ہیں، ’’آپ کو یہ سن کربہت حیرانی ہوگی کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک ایک بھی شخص کو بچوں کو ملازمت پررکھنے کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ سزا دی گئی تو صرف جرمانے کی جس کی رقم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ عملدرآمد نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جتنے بھی قوانین بنائے گئے ہیں وہ رسمی یا فارمل سیکٹر کا احاطہ کرتے ہیں۔ جو ہمارا غیررسمی سیکٹر ہے، اس سے متعلق بہت ہی کم قوانین ہیں۔ مثلا گھریلو ملازم بچوں سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ اسی طرح جو بچے گاؤں یا دیہات میں زراعت کے پیشے میں کام کرتے ہیں، ان سے متعلق کوئی قانون نہیں۔ یعنی چائلڈ لیبر کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے، جن سے متعلق کوئی قانون نہیں بنایا گیا ہے۔‘‘

واضع رہے کہ ملک میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق، جو شخص بھی 16 سال سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھتا ہے یا اس کی اجازت دیتا ہے تو اسے 20 ہزار روپے تک جرمانہ یا قید کی سزا جسکی مدت ایک سال تک ہو سکتی ہے، یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں۔ اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی کم از کم سزا 6 ماہ ہے جس کی مدت دوسال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔

عالمی ادارہ محنت کے مطابق چائلڈ لیبر کے زمرے میں آنے والے بچوں کی تعداد زیادہ تر قالین بافی، چوڑیاں بنانے کی صعنت، سرجیکل آلات بنانے، کوڑا چننے، چمڑا رنگنے کی صعنت کے علاوہ گھروں میں ملازمت کرتے ہوئے پائی جاتی ہے۔

چند ماہ قبل انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن کے تحت جو رپوٹ شائع ہوئی، اس میں دنیا کے 67 ایسے ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے، جہاں چائلڈ لیبر کے حوالے سے خطرناک صورتحال ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا چھٹا نمبر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس صورتحال کو بہتر کرنے میں حکومت سنجیدگی سے کوشش کرے اور مؤثر قانون سازی پر توجہ دے تو ملک میں چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن ہے۔

Comments

- Advertisement -
فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں