تازہ ترین

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

اسلام آباد : صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے...

اٹھارواں کالم ، نکاح نامہ ایک زنجیر

تحریر : وسیم نقوی

ہاتھی کو بچپن میں زنجیر سے باندھ کر رکھا جاتا ہے وہ اُس زنجیر کو توڑنا چاہتا ہے لیکن توڑ نہیں سکتا اور جب ہاتھی بڑا ہو جاتا ہے تواُس کے پاس زنجیر توڑنے کی طاقت ہوتی ہے اور تب بھی اُسی زنجیر سے  اسکوباندھا جاتا ہے مگر کیونکہ بچپن سے ہاتھی کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چُکی ہوتی ہے کہ میں جتنی چاہوں طاقت لگالوں لیکن اس زنجیر کو توڑ نہیں سکتااور وہ زنجیر ہاتھی کو اپنی گرفت میں جکڑے رکھتی ہے اور اپنی حدود سے باہر نہیں جانے دیتی اگرہم اس ہاتھی کو پاکستانی معاشرے میں رکھ کر دیکھیں تو یقیناً پاکستانی عورت آپکو اس ہاتھی کی طرح ہی نظر آئے گی جس کے پاس تمام طاقت اور اختیارات تو ہوتے ہیں مگر وہ معاشرے کی روایات اور خاندانی رسومات کے ہاتھوں لاعلم،مجبور اوربے بس بنا د ی گئی ہے۔

پاکستان میں جہاں طلاق کی شرح 80-85 فیصد تک بڑھ گئی ہے یقیناًاس کی بہت سی وجوہات ہیں جس میں کم عمری میں شادی کر دینا،وٹہ سٹہ جیسی رسومات، اسلام میں جہاں ازواجی زندگی گزارنے کی بہترین مثالیں موجود ہے جس میں رسولِ خدا  اور حضرت خدیجہ کی بہترین زندگی اس کے علاوہ حضرت علی کرم اللہ وجہ اور حضرت بی بی فاطمہ  کی زندگی بہترین نمونہ ہیں جہاں اگر بیوی مرد سے زیادہ عمر کی ہو تو بی بی خدیجہ اور رسول اللہ  اور اگر مرد عورت سے زیادہ عمر کا ہو تو حضرت علی  اور بی بی فاطمہ  کی ازواجی زندگی پر عمل کر کے اپنی زندگی جنت بنا سکتے ہیں ان بہترین مثالوں کے باوجود اسلامی معاشرے میں طلاق کی شرح کم ہونے کے باوجود بڑھتی جا رہی ہے۔

میں یقین سے کہہ سکتا ہوں اور آج تک جس سے میں نے یہ سوال کیا سب کا جواب " نا" میں آیا سوال تھا " کیا آپ نے شادی سے پہلے نکاح نامہ پڑھا تھا ؟؟ " نا تو نا اکژنے جواب دیا کہ شادی کی خوشی میں نکاح نامہ پڑھنا تو دور کی بات شادی کے بعد کے غم میں بھی کبھی نہیں پڑھا۔

چلو مظلوم میاں بیوی تو ایک طرف… کیا کبھی مولوی صاحب نے یہ نکاح نامہ شادی کے وقت پڑھ کر سنایا؟ توسب مولویوں میں اس مسئلے پر اتحاد بین المسلمین پایا ،،،، یقین کریں سب کا جواب تھا کہ ضروری کالم پڑھ لیتے ہیں باقی نہیں۔۔ ضروری کیا ہے اس کا فیصلہ کون کرے گا اور کیا چیز کس کے لیے کتنی اہمیت کی حامل ہے؟؟ آپ خود فیصلہ کر لیں کہ ہر شادی پر مولوی صاحب کو ہمیشہ یہ ہی سنتے پایا ہوگا کہ" فلاح بنت فلاح کا نکاح،، فلاح ابنِ فلاح سے فلاح حق مہر میں طے پارہا ہے کیا آپ کو قبول ہے؟ ؟ نکاح خواں مولویوں سے میرا بھی ایک سوال ہے کہ کیا کبھی اس سوال کا جواب نا میں آیا ہے؟؟ کتنے لڑکے لڑکیاں ہیں جنہوں نے اس سوال کا جواب " نا " میں دیا ہو…. آپ بھی اپنے اپنے علاقے کے مولویوں سے اس بات کی تصدیق کروا سکتے ہیں اور کبھی پوچھ کر خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اور لڑکی "نا"کر بھی کیسے کر سکتی ہے،  نکاح کے وقت لڑکی کے سر پر پورا خاندان " "کسی چوبدار کی طرح کھڑا ہوتا ہے۔ شادی ایک " سوشل کنٹریکٹ' ہے اور میاں بیوی اس کنٹریکٹ کی دو پارٹیز… کنٹریکٹ کی تمام شقیں پڑھ کر دونوں پارٹیزکے علم میں لانا ہوتی ہیں اور کوئی بات بھی دونوں پارٹیوں سے خفیہ نہیں رکھی جاتی مگر اسی نکاح نامے کا18 کالم ہمارے معاشرے کے مولوی حضرات کاٹ دیتے ہیں کیونکہ اس کالم میں عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے مجھے نہیں پتا کہ تمام شقوں کو پڑھے بغیر یہ کنٹریکٹ قانونی رہا یا نہیں اور شریعت کے بارے میں بات کرنا میرے بس میں نہیں۔

 آج تک بہت کم لڑکیوں کو اس کالم کا پتہ ہے جو کہ نا ہونے کے برابر ہے اگر یہی کالم نکاح کے وقت باآوازِ بلند پڑھ کر سب کو سنایا جائے جیسے فلاح ابنِ فلاح پڑھا جاتا ہے تو شاید عورت اپنا قانونی حق اور طاقت جان سکے لیکن اگر ایسا ہو گیا تو تمام مولوی اور مردوں کی انا کہاں جائے گی ہمارا معاشرہ جو کہ مردوں کی مرضی پر انحصار کرتا ہے ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کیونکہ عورت تعلیم کے میدان میں مردوں کو مات دے رہی ہیں نوکریوں کے میدان میں مردوں کے برابر آگئی ہیں۔ان سب کے بعد عورت تو نکاح خواں نہیں بن سکتی اور اب مردوں کے پاس ایک ہی راستہ بچا کہ عورت کو اس کالم سے لاعلم رکھ کر اپنا غلام بنایا جا سکے اور شوہر بیوی پر جی بھر کر تشدد کر سکے اور عورت کو اگر طلاق بھی چاہیے ہو تو وہ مرد سے طلاق بھی بھیک مانگ مانگ کر حاصل کرے اور جب طلاق حاصل کر لے تو قصور کسی کا بھی ہو ۔۔ حقارت کی نظر صرف عورت کے مقدرمیں ہی آئے گی لیکن اگر کسی لڑکی کو اپنے اس حق کا علم ہو بھی جائے تو ہماری خاندانی رسومات کے بوجھ تلے لڑکی دب کے خاموش ہو جاتی ہے۔

ایک ٹی وی چینل پر دو مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام تشریف فرما تھے کہ اور خلع کے موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی اور دونوں اس بات پر متفق تھے کہ طلاق کا حق صرف مرد کو ہی حاصل ہے مولوی حضرات نکاح کے وقت اٹھارواں کالم کاٹ دیتے ہیں لیکن اگر عورت مرد کے تشدد سے تنگ آجائے توعورت کے پاس دوہی آپشن ہوتے ہیں ایک یہ کہ وہ زندگی بھر اس تشدد کو اپنا مقدر سمجھ کر صبر کرے یادوسرا عدالت کی طرف رجوع کرکے خلع لے کر اس عذاب سے جان چھڑائے یہ دونوں آپشن صرف اسی وقت قابلِ عمل ہوتے ہیں جب اس اٹھارویں کالم کو نکاح کے وقت کراس کر دیا جاتا ہے مجھے نہیں پتہ کہ اس کالم کو کاٹنا یا چھوڑ دینا شرعی ہے یا نہیں لیکن اتنامیں ضرور کہوں گا کہ اسے کراس کرکے جو ذلت عورت اور اس کے گھر والوں کو اٹھانی پڑتی ہے وہ قیامت سے کم نہیں ہمیں عورت کو اس کا قانونی حق دینا تو گوارہ نہیں مگر عورت کو تشدد اور عدالت کے چکر لگوا کر شاید ہم شریعت کی خدمت کر رہے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ میرے دوست نے سنایا کہ ہمارے جاننے والے کے گھر ایک شادی تھی اور جس لڑکی کی شادی ہونے جارہی تھی وہ وکیل بھی تھی شادی سے ایک دن پہلے لڑکی نے اپنے والدین سے کہا کہ میں اپنے نکاح نامے میں 18 کالم نہیں کٹواوں گی، بس یہ کہنا تھا کہ جیسے اعلانِ جنگ ہوگیا ہو۔۔والدین کی طرف سے جو کچھ سننے کو ملا اس میں سے چند کلمات یہ تھے کہ "ابھی سے خلع لینے کا سوچ رہی ہے اگر یہ بات تمہارے سسرالیوں کو پتہ چل گئی تو وہ کیا سوچیں گے وہ سمجھیں سے کہ اس لڑکی کا ارادہ کہیں اور ہے جو یہ ابھی سے ایسے مطالبات کر رہی ہے" جب ہم اپنی بیٹی کو دلہن کے لباس میں غلامی کی زنجیریں ڈال دیں گے اور ہمیشہ کے لئے مرد کی غلامی میں دے دیں گے تو پھر یقیناًہمیں بُرے نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ لیکن اگر ہم صرف ایک کالم کا علم اور حق عورت کو دے دیں تو مکمل نا سہی مگر کافی حد تک عورت تشدد کی زنجیروں سے باہر نکل آئے گی اور کئی گھرانے برباد ہونے سے بچ جائیں گے ۔    
   

Comments

- Advertisement -