تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

برطانوی نژاد مسلم طالبہ کے ساتھ بس ڈرائیورکی بدتمیزی اورنسلی امتیازسلوک

لیڈز: برطانوی نژاد مسلم خاتون، یسریٰ احمد نے فیس بک پوسٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ نیشنل ایکسپریس کے ڈرائیورنے ان کے ساتھ نسلی امتیاز برتا اوران سے بدتمیزی کی۔

برطانیہ میں مقیم 20 سالہ نوجوان خاتون کا کہنا ہے کہ ڈرائیور نے سب سے پہلے توانکے اور ان کے ساتھیوں کے ٹکٹس کو انتہائی باریک بینی سے دیکھا جو کہ دوسرے مسافروں کے ساتھ نہیں کیا گیا۔

خاتون نے مزید کہا کہ ٹکٹس اچھی طرح دیکھ لینے کے بعد اس نے ہم سے پوچھا کہ ’’ہمارے پاس کسی قسم کا سالن تو نہیں ہے‘‘۔

یسریٰ کے مطابق انہوں نے ڈرائیور کو بتایا کہ ان کے پاس کسی قسم کا سالن نہیں ہے بلکہ اچھی طرح سے پیک چاول اور ٹھنڈے لاسانے ہیں جن سے کسی قسم کی کوئی بو پیدا نہیں ہوگی۔

ان کے مطابق ڈرائیور نے پینترا بدل کر اس بات پر اصرار شروع کردیا کہ وہ بس میں کسی بھی قسم کی کھانے لائق چیز لے جانے کی اجازت نہیں دے گی حالانکہ ایسی کوئی پابندی دیگر مسافروں کے لئے نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’بس ڈرائیور مشرقی افراد کے بارے میں اپنے لغو خیالات کے سبب انہیں نشانہ بنا رہی تھی، اور کیونکہ وہ اپنی وضع قطع سے مسلم نظرآتی ہیں لہذا انہیں نشانہ بنانا آسان ہے‘‘۔

یسریٰ کا کہنا ہے کہ کوچ کے گارڈ نے بھی انہیں مجبور کرنے کی کوشش کہ ہم ڈرائیور سے معافی مانگیں جس کے سبب ہمیں وہ کوچ چھوڑنا پڑی اور دو گھنٹے تکل دوسری کوچ کا انتظارکرنا پڑا۔

متاثرہ خاتون کے مطابق نیشنل ایکسپریس نے باقاعدہ شکایت درج کرانے باوجود ابھی تک معافی نہیں مانگی ہے۔

دوسری جانب نیشنل ایکسپریس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ غیر شائستہ رویے کی شکایات انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں اور وہ معاملے کی تحقیقات کررہے ہیں

یسریٰ کے مطابق یہ ایک حیرت انگیزاورتوہین آمیزواقعہ تھا۔ ان کے مطابق یہ سب صرف کھانے کو لے کرنہیں تھا بلکہ یہ بات اصول کی ہے اور ڈرائیور کے نسل پرست اور اسلام مخالف فوبیا کی ہے۔

Comments

- Advertisement -