تازہ ترین

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

وفاقی حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی اجازت دے دی

وفاقی حکومت نے برآمد کنندگان کو آٹا برآمد کرنے...

وزیراعظم شہباز شریف آج چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے اہم ملاقات کریں گے

اسلام آباد : وزیراعظم شہبازشریف اور چیف جسٹس سپریم...

بھارت ’غلامی‘ جیسے سنگین جرم میں سرِ فہرست نکلا

لندن (سروے رپورٹ) – آج کے مہذب دور میں جہاں آزادیٔ اظہار جیسا حق اب بنیادی حقوق میں شامل ہوتا ہے آج بھی تین کروڑ ساٹھ لاکھ سے زائد افراد دنیا کے مختلف ملکوں میں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور بھارت غلامی کے اس بھیانک جرم میں سرِ فہرست ہے۔

آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی ہیومن رائٹس کی تنظیم والک فری فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً ساڑے تین کروڑ افراد غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

گزشتہ سال جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد دو کروڑ نوے لاکھ تھی اور اس سال مزید بہتر طریقے سےاعداد و شمار اکٹھے کئے گئے ہیں۔

اس سال جاری کئے گئے اعدادو شمار کے مطابق 167 ممالک میں انسانوں کو غلام بنانے ک عمل جاری ہے اور بھارت انسانی غلامی کے بھیانک جرم میں ایک کروڑ تینتالیس لاکھ افراد کے ساتھ سرِ فہرست ہے۔ جہاں جنسی مشقت سے لے کرجبری مشقت تک کے لئے انسانوں کو غلام بنا یا جاتا ہے۔

ماریطانیہ وہ ملک ہے جہاں آبادی کے تناسب سے غلامی کی شرح بہت زیادہ ہے جب کہ قطر جہاں 2022 کے ورلڈ کپ کا انعقاد ہونا ہے رینکنگ میں چھیانویں نمبر سے اٹھ کر چوتھے نمبر پرآگیا ہے۔

سروے کے مطابق دس ممالک ایسے ہیں جو کہ دنیا بھر کے غلاموں میں 71 فیصد حصہ رکھتے ہیں۔

جن میں بھارت کے بعد چین (بتیس لاکھ)، پاکستان (اکیس لاکھ)، ازبکستان (بارہ لاکھ)، روس (دس لاکھ)،نا ئجیریا (تقریبا آٹھ لاکھ)، کانگو(ساڑھے سات لاکھ)،ا نڈونیشیا (سوا سات لاکھ)، اور بنگلہ دیش (چھ لاکھ اسی ہزار) غلاموں کے ساتھ سرِ فہرست ہے۔

جب کے عراق اورشام میں قائم ہونے والی متنازعہ دولت اسلامیہ بھی بہت تیزی سے خواتین کی بڑی تعداد کو جنسی مشقت کے لئے غلام بنا رہی ہے۔

Comments

- Advertisement -
فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں