نئی دہلی (اے ایف پی) – بھارت کی ایک صفِ اول کی جامعہ نے منگل کو اعلامیہ جاری کیا ہے کہ طالبات کو جامعہ کی مرکزی لائبریری میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ جامعہ کا موقف ہے کہ یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا ہے کہ طلبہ کی توجہ پڑھائی پر مبذول رہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ملحق ویمن کالج کی اسٹنٹ پروفیسر شاداب بانو نے اس موقع پربین الاقوامی خبررساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کافی عرصے سے اس کوشش میں تھی کہ لائبریری میں طالبات کے داخلے پر پابندی لگائی جائے۔
بانو کا کہنا تھا کہ اس سے قبل یونیورسٹی انتظامیہ نے یہ مؤقف اختیارکیا تھا کہ کالج سےلائبریری تک کا راستہ طالبات کے لئے محفوظ نہیں ہے۔
بھارتی وزیرِتعلیم سمرتی ایرانی نے مقامی اخبار کی جانب سے جامعہ کے وائس چانسلر ضیاء الدین شاہ کے رویےکو واقعے کا ذمہ دار قرار دینے کی خبرپرشدید غم و غصے کا اظہار کیا اور صحافیوں کو بتایا کہ بیحیثیت عورت ایسی خبریں انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سیکریٹری برائے اعلیٰ تعلیم کو اس معاملے کی تفصیلات طلب کی ہیں اور یونیورسٹی انتظامیہ سے وضاحت بھی طلب کی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی تعلیمی ادارے اس قسم کی خبروں سے ہماری قوم کی بیٹیوں کی توہین ہوئی ہے۔
دوسری جانب جامعہ کے ترجمان راحت ابرار کا کہنا ہے کہ شیخ الجامعہ کے بیان کو غلط مفہوم میں لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ یونیورسٹی کے انفراسٹرکچر کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے کیونکہ طالبات کو لائبریری میں داخلے کی اجازت دینے سے جگہ تنگ ہوجاتی ہے۔
راحت نے مزید کہا کہ جب ہمیں جگہ کی سہولت میسر آجائے گی تو ہم طالابات کو داخلے کی اجازت دے دیں گے ، انہوں نے مزید کہا کہ ویمن کالج کی اپنی لائبریری بھی انتہائی عمدہ ہے۔
شمالی ہندوستان کی ریاست اتر پردیش میں واقع علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے خطے میں مغربی تعلیم کو فروغ دیتی آئی ہے۔