تازہ ترین

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

چیف جسٹس کا ریکوڈک منصوبے پر باقاعدہ اتھارٹی اور حکومتی پالیسی بنانے کا مشورہ

اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریکوڈک منصوبے پر باقاعدہ اتھارٹی اور حکومتی پالیسی بنانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک بار پالیسی بن جائے گی تو عدالت کیلئے فیصلےمیں آسانی ہوگی۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ریکوڈک صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ریکوڈک منصوبےمیں10ارب ڈالر کی بڑی سرمایہ کاری ہو رہی ہے، منصوبے سےعالمی سرمایہ کاروں کی ہچکچاہٹ ختم اورسرمایہ آئے گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا مطمئن نہ کر سکے مخصوص کمپنی کیلئےحکومت نئی قانون سازی کیوں کر رہی ہے؟ بار بار ڈرایا جا رہا ہے منصوبہ 15 دسمبر تک طے نہ ہواتو10 ارب ڈالر کا بوجھ پڑ جائے گا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عدالت کو ڈرا نہیں رہا اگر 10 ارب ڈالر کا جرمانہ پڑ گیا تو قوم ہی بھگتے گی، حکومت بلوچستان کو اس معاہدے میں برابر کی حصہ دار ہے۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ حکومت بلوچستان کوئی بہت مضبوط اتھارٹی نہیں ہے، ریکوڈک معاہدہ اور اس کے بعد پورے منصوبے کی نگرانی کون کرے گا؟

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سی پیک طرز کی اتھارٹی بنائیں جو ریکوڈک منصوبےکا جائزہ لیتی رہے،دوبارہ ریکوڈک منصوبے کو تباہ ہونے نہیں دینا چاہتے، ریکوڈک معاہدے میں ابھی بھی4.5 ارب ڈالرکا بوجھ ہے۔

جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ آسانی کیلئے رولز میں نرمی کر سکتے ہیں لیکن اپنا معیار نہیں گرا سکتے، ریکوڈک سےملحقہ علاقوں میں آبادی کےحقوق بھی متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔

چیف جسٹس نے ریکوڈک منصوبے پرباقاعدہ اتھارٹی اور حکومتی پالیسی بنانےکامشورہ دیتے ہوئے کہا ریکوڈک منصوبے کا پچھلا معاہدہ مخصوص کمپنی کیلئے رولز میں نرمی پرکالعدم ہوا، دی جانے والی چھوٹ ،رولزمیں نرمی کوپالیسی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے، چیف جسٹس

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ایک بار پالیسی بن جائے گی تو عدالت کیلئےفیصلےمیں آسانی ہو گی، عالمی سرمایہ کاروں کیلئےملک کی یکساں پالیسی سےشفافیت آئے گی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 14 نومبر تک ملتوی کر دی۔

Comments

- Advertisement -