تازہ ترین

یوٹیوب پر پابندی لگے 1000 دن بیت گئے

حکومت پاکستان کی جانب سے دنیا کی سب سے زیادہ ویڈیو شیئر کرنے والی ویب سائٹ یوٹیوب پر پابندی لگائے ہوئے ایک ہزار دن مکمل ہوگئے۔

ویڈیو شیئر کرنے والی ویب سائٹ یوٹیوب پر گستاخانہ مواد کے پیش نظر ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کے باعث 17 ستمبر 2012 کو حکومت پاکستان کی جانب پابندی لگادی گئی تھی جس پر آج تک پاکستان میں پابندی ہے ۔

حکومت کے اس فیصلے پر سپریم کورٹ کا موقف تھا کہ  ویب سائٹ کو اس وقت تک بند رکھا جائے جب تک اس پر سے گستاخانہ مواد کو ختم نہیں کردیا جاتا ۔

رواں سال فروری میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کی وزیر انوشہ رحمان نے سینیٹ کو بتایا کہ حکومت یو ٹیوب کھولنے کیلئے اقدامات کررہی ہے۔

انوشہ رحمان نے مزید کہا کہ دنیا میں ایسی کوئی ٹیکنالوجی یا طریقہ کار نہیں جو یوٹیوب پر متنازعہ مواد کو  %100بلاک کر سکے۔انہوں نے کہا کہ یوٹیوب پر پابندی سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر لگائی گئی تھی ۔ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی نے یوٹیوب کو بلاک کرکے عملدرآمد رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی۔

ماہ فروری میں یہ افوا گردش ہوئی کہ یوٹیوب پاکستان میں کھل گئی ہے،  جس پر وزیرمملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشے رحمان نے بتایا کہ ” ملک کے کچھ حصوں میں یوٹیوب تک رسائی کی وجہ تیکنیکی خرابی ہے جسے جلد حل کرلیا جائے گا”۔

ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب کی جانب سے مبینہ گستاخانہ ویڈیوز شئیر کرنے پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں پرتشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس کی وجہ سے 2012 میں پاکستان بھر میں ویب سائٹ کو بلاک کیا گیا۔

اس وقت سپریم کورٹ کی جانب سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا کہ جب تک گستاخانہ یا قابل اعتراض مواد کو بلاک کرنے کا کوئی موثر انتظام نہیں ہو جاتا، یوٹیوب پر ملک بھر میں پابندی رہے گی۔

پاکستان میں انفارمیشن اینڈ آئی ٹی کی وزیر انوشہ رحمان نے گذشتہ روز سینیٹ کو بتایا کہ اس حوالے سے کئی بار اقدامات اٹھائے گئے ہیں تاہم گستاخانہ مواد کی روک تھام نہیں ہو پارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ جب یوٹیوب کو بحال کیا جائے تو قابل اعتراض مواد تک کسی کی رسائی نہ ہو۔

قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن شازیہ مری نے ویڈیو شیئرنگ کی مقبول ویب سائٹ یوٹیوب پر سے پابندی ختم کرنے کے لیے ایک قرارداد پیش کی، جس کی حکومتی اراکین نے مخالفت کردی۔

شازیہ مری کا کہنا ہے کہ یہ ویب سائٹ متبادل طریقے سے انٹرنیٹ پر چل رہی ہے، پابندی کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن ایوان میں حکومتی نشستوں پر موجود اراکین نے اس قرارداد کی مخالفت کی اور اسپیکر سردار ایاز صادق نے معاملے کو مخر کردیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک کوئی ایسا حل نہیں نکالا جاسکا ہے جس کے ذریعے سے قابل اعتراض مواد گستاخانہ ویڈیوز کو ملک میں مکمل بلاک کیا جاسکے اسی لئے یوٹیوب غیر معینہ مدت کیلئے بند رہے گی۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن نے 2011 میں 1700 الفاظ پر پابندی لگا دی تھی جبکہ 2010 میں قابل اعتراض مواد شائع کرنے پر فیس بک کو 2 ہفتوں کیلئے بند کردیا گیا تھا اور اب بھی قابل اعتراض آن لائن لنکس پر بابندی کا سلسلہ جاری ہے۔

Comments

- Advertisement -