تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

کون ہوگا ایوانِ صدر کا اگلا مکین؟

پاکستان میں کل صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوگا جس کے لیے قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں رائے شماری ہوگی، صدر کے عہدے کے لیے پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن، تحریک انصاف کے عارف علوی اور متحدہ اپوزیشن کے امید وارمولانا فضل الرحمان میدان میں ہیں۔

صدر پاکستان، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سربراہ ہوتا ہے۔ پاکستانی آئین کے مطابق صدر کو ماضی میں قومی اسمبلی کوتحلیل کرنے( سپریم کورٹ کی منظوری سے مشروط)، نئے اتخابات کروانے اور وزیر اعظم کو معطل کرنے جیسے اختیارات دئے گئے ۔ ان اختیارات کو فوجی بغاوتوں اور حکومتوں کے بدلنے پر با رہا مواقع پر تبدیل اور بحال کیا گیا۔ لیکن 2010ء کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعہ پاکستان کو نیم صدراتی نظام سے دوبارہ پارلیمانی نظام، جمہوری ریاست کی جانب پلٹا گیا۔اس ترمیم کے تحت صدر کے اختیارات میں واضح کمی کی گئی اور اسے صرف رسمی حکومتی محفلوں تک محدود کیا گیا جبکہ وزیر اعظم کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔

سنہ 1956ء میں گورنر جنرل کی جگہ صدرِ مملکت کے عہدے کا قیام عمل میں آیا ، تب سے اب تک اس عہدے پر 13 صدور فائز ہوچکے ہیں جبکہ مختصر عرصے کے لیے دو افراد نگران صدر بھی رہے ہیں۔ 1956 کے آئین میں جب اس عہدے کو تخلیق کیا گیا تو اسکندر مرزا ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ صدر کا عہدہ پانچ سال پر مبنی ہوتا ہے۔ صدر کے عہدے کی میعاد ختم ہونے پر یا ان کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینٹ یہ عہدہ سنبھالتا ہے۔

آئیے دیکھتے ہیں کون سی شخصیت کتنے عرصے کے لیے ایوانِ صدر کی مکین رہی ہیں۔

اسکندر مرزا


پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا تھے ، ان کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے تھا اور انہوں نے 23 مارچ 1956 کو صدرِ مملکت کا عہدہ سنبھالا ، اور 27 اکتوبر 1958 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس سے قبل ملک میں صدر ِمملکت کا عہد ہ موجود نہیں تھا بلکہ گورنر جنرل ان اختیارات کا حامل ہوا کرتا تھا۔

ایوب خان


فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے27اکتوبرسنہ 1958ء نے سویلین حکومت کو برطرف کرکے پاکستان کی قیادت سنبھالی۔ وہ 25 مارچ 1969 تک ملک کے صدرمملکت کے عہدے پر فائز رہے ، اس دوران سنہ 1962 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دی ، سنہ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستانی فوج کی قیادت بھی کی۔

یحییٰ خان


جنرل یحییٰ خان نے اپوزیشن کے پرزور احتجاج کے بعد مستعفی ہونے والے صدر ایوب کی جگہ 25 مارچ 1969 کو اقتدار سنبھالا ، ان کا دور سیاسی ابتلا اور کشمکش کا دور تھا ، انتخابات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب میں کشمکش جاری تھی ، سقوط ڈھاکہ کے چار دن بعد یعنی 20 دسمبر 1971 میں جنرل یحییٰ نے صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔

ذوالفقارعلی بھٹو


پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر 1971 کو منصبِ صدارت سنبھالا اور وہ 13 اگست 1973 تک اس عہدے پر فائز رہے، انہی کے دور میں پاکستان کا تیسر ا اورمتفقہ آئین تشکیل دیا گیا جس میں صدر کے بجائے وزیراعظم کے عہدے کو قوت دی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے صدارت سے استعفیٰ دے کر وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔

فضل الہیٰ چودھری


فضل الہیٰ چودھری کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا اور وہ 14 ا گست 1973 سے لے کر 16 ستمبر 1978 تک صدر کے عہدے پر فائز رہے، ان کے دور میں صدرِ مملکت کا اختیار انتہائی محدود تھا۔

جنرل ضیا الحق


سنہ 1977 میں فوجی حکومت کے قیام کےبعد 16 ستمبر 1978 کو فوجی حکمران جنرل ضیا الحق نے صدرِ مملکت کے عہدے کا حلف اٹھایا، وہ 17 اگست 1988 تک تاحیات اس عہدے پر فائز رہے ، ان کے دور میں طاقت کا تمام تر مرکز صدر مملکت کی ذات تھی۔

غلام اسحاق خان


چیئرمین سینٹ غلام اسحاق خان نے 17 اگست 1988 کوفضائی حادثے میں جنرل ضیا الحق کے جاں بحق ہونے کے بعد ہنگامی حالات میں صدر مملکت کے عہدے کا حلف اٹھایا ، وہ دسمبر 1988 تک بیک وقت چیئرمین سینٹ اور صدرِمملکت کی ذمہ داری نبھاتے رہے ، اور دسمبر 1988 میں چیئرمین سینٹ کا عہدہ چھوڑ کر18 جولائی 1993 تک صدر کے عہدے پر فائز رہے۔

فاروق لغاری


پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق لغاری نے 14 نومبر 1993 میں صدر مملکت کا عہدہ سنبھالا اور 2 دسمبر سنہ 1997 تک اس عہدے پر فائز رہے ، اس دوران انہوں نے کرپشن کے الزامات کے سبب اپنی ہی پارٹی کی حکومت برطرف کردی۔

محمد رفیق تارڑ


پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے محمد رفیق تارڑ نے 1 جنوری 1998 میں عہدہ سنبھالا اور 20 جون 2001 تک اس عہدے پر فائز رہے ، ان کی صدارت کے دوران جنرل پرویز مشرف نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف ایمرجنسی کا نفاذ کردیا۔

جنرل پرویز مشرف


جنرل پرویز مشرف ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ملک کے چیف ایگزیکٹو بن گئے تھے ، 20 جون 2001 کو رفیق تارڑ کے استعفے کے بعد انہوں صدر مملکت کے عہدے کا حلف اٹھا یا اور بعد ازاں اپنے عہدے کو قانونی بنانے کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد بھی کرایا۔ پرویز مشرف 18 اگست 2008 تک صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔

آصف علی زرداری


بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین کا عہدہ سنبھالنے والے آصف علی زرداری9 ستمبر2013 تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے ، ان کے دور میں آئین میں اٹھارویں ترمیم لائی گئی جس کے تحت صدرِ مملکت نے 58 ٹو بی ( اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار) جیسے اختیارات پارلیمنٹ کو سرینڈر کردیے۔

ممنون حسین


پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ممنون حسین نے 9 ستمبر 2013 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور رواں ماہ ستمبر میں ان کے عہدے کی مدت ختم ہورہی ہے ، ممنون حسین کا تعلق کراچی سے ہے اورانہیں پاکستان کی تاریخ میں ایسے صدر کے طور پر یاد رکھا جائے گا جنہوں نے اپنا دامن سیاسی تنازعات سے دور رکھا۔

اس کے علاوہ تین ادوار میں چیئر مین سینٹ کچھ عرصے تک صدرِ مملکت کے فرائض انجام دیتے رہے،

یہ مواقع تب پیش آئے جب صدر نے اپنی آئینی مدت مکمل کیے بغیر استعفیٰ دیا۔

وسیم سجاد


صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کے استعفے کے بعد چیئرمین سینٹ وسیم سجاد نے 18 جولائی 1993 میں قائم مقام صدر کےعہدے کا حلف اٹھایا اور وہ 14 نومبر 1993 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ دسمبر 1997 میں صدر فاروق لغاری کے استعفے کے سبب چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد نے ایک بار پھر قائم مقام صدر کے عہدے کا حلف اٹھایااور 1 جنوری 1998 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

محمد میاں سومرو


پاکستان مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے محمد میاں سومرو نے صدر پرویز مشرف کے استعفے کے سبب صدرِ مملکت کے عہدے کاحلف اٹھایا اور وہ اس عہدے پر 9 ستمبر 2008 تک فائز رہے۔

Comments

- Advertisement -
فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں