تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

ڈی ٹی ایچ آخر ہے کیا؟

لاہور: پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے پاکستان کے پہلے تین ڈی ٹی ایچ لائسنس 4.5 ارب روپے میں فروخت کر دئیے ہیں،میڈیا سے وابستہ ماہرین کا خیال ہے کہ ڈی ٹی ایچ ٹیکنالوجی نہ صرف یہ کہ عوام میں مقبولیت پائے گی بلکہ اس طرح کیبل آپریٹرز مافیا کے چنگل سے نکل پائیں گے۔

ڈی ٹی ایچ کیا ہے ؟

گو کہ حکومتِ پاکستان عوام کی سہولت کی فراہمی کے لیے کیبل آپریٹرز کی ناراضی مول لے چکی ہے اور ایک دن کے لیے ملک بھر میں کیبل کی بندش بھی بھگت چکی ہے تا ہم ابھی تک خود عوام بات سے لاعلم ہیں جس چیز کے لیے حکومت اتنے پاپڑ بیل رہی ہے آکر وہ ہے کس بلا کا نام ؟

ڈی ٹی ایچ تین حرفی انگریزی لفظ ہے جو دراصل Direct to Home کا مخفف ہے، یہ ایسی ٹیکنالوجی ہے جس سے آپ براہ راست سٹیلائٹ کے ذریعے چینلز کے سنگلز وصول کر سکیں گے اور اس کے لیے کسی اضافی تار یا کسی اور واسطے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

ویڈیو دیکھنے کے لیے اسکرول کریں

یعنی آپ کے گھر میں براہ راست چینلز کے سنگنلز بغیر کسی تار اور یا آپریٹرز کے آیا کریں گے اورآپ اپنی مرضی کا چینل تصویر اور آواز کی بہترین ایچ ڈی کولٹی کے ساتھ دیکھ سکیں گے۔

کیبل کے ذریعے ہم تک نشریات کیسے پہنچتی ہے؟

کیبل آپریٹرز بھی نشریات ہم تک پہنچانے کے لیے DTH سروس کا استعمال کرتے ہیں وہ الگ الگ چینلز کے لیے علیحدہ علیحدہ ٹی وی اور ڈی ٹی ایچ باکس رکھتے ہیں اور چینل کی ٹرانسمیشن لیتے ہیں جسے کیبل تاروں کے ذریعے صارفین تک پہنچاتے ہیں۔

DTH ٹیکنالوجی بہ مقابلہ کیبل ٹیکنالوجی

ڈی ٹی ایچ کی ٹیکنالوجی کے ذریعے ہائی کوالٹی یعنی 1080 ایچ ڈی ریزولوشن کی ٹرانسمیشن دیکھنے کو ملتی ہے اور آواز کا معیار بھی بہت اچھا ہوتا ہے اور 700 کے قریب چینلز دیکھے جا سکتے ہیں۔

جب کہ کیبل سروس کے ذریعے محض 100 کے قریب چینل فراہم کیے جاتے ہیں اور ان کا معیار بھی لو ڈینٹی سٹی کا ہوتا ہے جس سے آواز اور تصویر معیاری نہیں لگتی اور کئی چینلز اتنے بھی صاف نہیں آتے کہ انہیں دیکھا جاسکے کسی کی تصویر غائب تو کہیں آواز ہی نہیں آتی۔

چونکہ اس سروس کے ذریعے چینلز کمپنی سے سیٹلائٹ کے ذریعے براہ راست صارف کے گھر تک پہنچ رہے ہوتے ہیں اس لیے غیر ضروری اشتہارات دیکھنے کو نہیں ملیں گے جب کہ کیبل آپریٹرز اپنی مرضی سے لگائے گئے اشتہارات صارفین کو دیکھنا پڑتے تھے جو کہ زیادہ تر غیر معیاری اور غیر ضروری ہوا کرتے ہیں۔

DTH کی سروس فل ڈپلیکس ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ نہ صرف ٹی وی ٹرانسمیشن دیکھ سکتے ہیں بلکہ اسی کے ذریعے اپنا پیغام بھی کمپنی کو بھیج سکتے اور اس کے ذریعے خاص چینل، کسی فلم حتیٰ کہ فون نمبر وغیرہ کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں یا اگر آپ کوئی چینل پیچھے کر کے دیکھنا چاہتے ہیں یا ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں تو یہ سہولت بھی میسر کی جاتی ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی دیگر سہولیات موجود ہیں۔

اس کی بہ نسبت کیبل آپریٹرز کی جانب سے فراہم کی جانے والی سروس ہاف ڈوپلیکس ہوتی ہے اور پروگرامز، چینلز اور فلموں کی ترتیب کیبل آپریٹرز کی صوابدید پر ہوتی ہے یعنی جو چینلز یا پروگرام وہ جس نمبر پر لگانا چاہے آپ کو دیکھنا پڑتا ہے جس میں صارف کی مرضی شامل نہیں ہو تی۔

DTH ٹیکنالوجی وائرلیس ہے اور تاروں کے بغیر کام کرتی ہے اس لیے اسے کہیں بھی رکھا اور اپنے ہمراہ لے جایا جاسکتا ہے اور اس سے کیبل آپریٹرز کی جانب سے گلیوں اور گھروں تک آنے والے تاروں کے جال سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔

جب کہ کیبل آپریٹرز چینلز کی ترسیل کیبل وائر کے ذریعے کرتے ہیں جن سے تاروں کا بے ہنگم ہجوم بن جاتا ہے اور موسم کی تبدیلی جیسے تیز ہوا کا چلنا، آندھی یا بارش کی صورت میں نشریات منقطع ہو جاتی تھی۔

ڈی ٹی ایچ ٹیکنالوجی کیوں کہ چینلز کو کمپنی سے براہ راست صارف کے گھر پہنچاتی ہے اس لیے بجلی جانے کی صورت میں بھی نشریات منقطع نہیں ہو گی۔

جب کہ کیبل آپریٹرز جس جگہ سے نشریات کی ترسیل کرتے ہیں اگر وہاں بجلی چلی جائے تو آپ بھی نشریات دیکھنے سے محروم رہ جائیں گے۔

DTH کو درپیش ممکنہ مشکلات

اگرچہ DTH نئی اور بہترین ٹیکنالوجی ہے تا ہم کچھ خاص وجوہات کی بناء پر عام آدمی اسے اپنانے سے گریزاں بھی ہوسکتے ہیں کیوں کہ اس کا استعمال جیب پر بھاری پڑسکتا ہے درج ذیل وجوہات کی بناء پراس ٹیکنالوجی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

DTH سروس سے بھرپور استفادے کے لیے ضروری ہے کہ گھر میں اچھی کوالٹی اور بڑے سائز کا LED ٹی وی ہو جو کہ ہر ایک صارف کی دسترس میں نہیں۔

عمومی طور پر ہر گھر میں دو یا تین ٹیلی ویژن ہوتے ہیں جو کہ الگ الگ کیبل وائر کے ذریعے بآسانی الگ الگ دیکھے جا سکتے ہیں جب کہ DTH باکس کے ساتھ صرف ایک ہی ٹی وی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ ایک باکس ایک وقت میں ایک ہی چینل دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے اگر ایک سے زائد ٹی وی بھی باکس کے ساتھ لگا دئیے جائیں تو دونوں ٹی وی پر پر ایک ہی وقت میں ایک ہی چینل دیکھا جا سکے گا۔

جب کہ اس وقت ایک صارف 200 سے 300 روپے ماہانہ فیس میں جتنے ٹی وی چاہے استعمال کرسکتا ہے جو بڑھ کر 1000 سے 1500 فی ٹی وی تک پہنچ جائے گا اور یوں صارف کو اپنے ہر ٹی وی کے لیے الگ ڈی ٹی ایچ باکس کے لیے فی باکس قیمت 4 سے 5 ہزار روپے الگ سے ادا کرنا ہو ں گے۔

سری لنکن و بھارتی ڈی ٹی ایچ کے بجائے پاکستانی ڈی ٹی ایچ 

پاکستان میں اس وقت بہت سے لوگ انفرادی طور پر بھی DTH استعمال کر رہے ہیں جس کے لیے وہ سری لنکا اور بھارت کے بنائے ہوئے ڈی ٹی ایچ باکس خریدتے ہیں اس لیے ان سے حاصل ہونے والا منافع ملکی خزانے میں جانے کے بجائے ان دونوں ممالک کو جا رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حکومت نے نیلامی کا فیصلہ کیا تھا جس کی باقاعدہ فروخت سے منافع بھی پاکستان کو ہی ملے گا اور صارف کو بھی سہولت ہو گی۔

Comments

- Advertisement -