فن قوالی کو منفرد انداز بخشنے والے عزیزمیاں قوال کو بچھڑے ہوئے آج 16 برس گزر گئے لیکن ان کی قوالیاں آج بھی سننے والوں پر وجد طاری کر دیتی ہیں۔
بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہونے والے عزیز میاں قوال نے فن قوالی میں اپنے منفرد انداز سے وہ شہرت حاصل کی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہےانہوں نے قوالی میں وہ وہ مضمون باندھے جو کسی اور کے حصے میں نہ آسکے اس پر انہیں کڑی تنقید کا بھی سامنا رہا۔
عزیز میاں قوام نے دس سال کی عمر میں قوالی سیکھنا شروع کی اور سولہ سال کی عمر تک قوالی کی تربیت حاصل کرتے رہے،انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو اورعربی میں ایم اے کی تعلیم حاصل کی،تصوف اور معارفت کی محفلوں میں وہ اپنا لکھا ہوا کلام ہی پیش کرتے تھے۔
ان کی وجہ شہرت قوالی کے دوران فی البدہیہ اشعار کی آمد ہے وہ پہلے سے تیار قوالی کے ساتھ ساتھ فی البدہیہ اور براہ راست شاعری میں ملکہ رکھتے تھے وہ واھد قوال تھے جو شاعر بھی تھے اور کمپوزر بھی تو تصوف اور معارفت کے منازل سے بھی باخوبی واقف تھے۔
عزیز میاں قوال کی شہرہ آفاق قوالیوں میں،میں شرابی شرابی، تیر ی صورت، اللہ ہی جانے کون بشرہے اور دیگر شامل ہیں، 115 منٹ طویل قوالی اور حشر کے روز ہی پوچھوں گا،انھوں نے خود لکھی،خود کمپوز کی اور خود ہی دنیا کے سامنے پیش کی،
ان کی قوالی سننے والوں پر وجد طاری کر دیتی ہے،اور ایسا سماں بندھ جاتا تھا کہ جس سے سامعین خود کو الگ نہیں کر پاتے تھے، حکومت نے ان کو کئی اعزازات سے نوازا جب کہ شاہ ایران نے بھی انہیں گولڈ میڈل پیش کیا تھا،
منفرد انداز اور لب و لہجے کے مالک عزیزمیاں قوال ایران کے شہر تہران میں 06 دسمبر 2000 کو کچھ عرصے علیل رہنے کے بعدخالقِ حقیقی سے جا ملے۔