تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

پاکستان کے 2 صوبے بارشوں اور بدترین سیلاب نے ڈبو دیے، 527 جاں بحق

کراچی: پاکستان کے جنوب مغربی اور جنوب مشرقی علاقے طوفانی بارشوں اور بد ترین سیلاب کی زد پر ہیں، جہاں مون سون کی بارشوں میں مجموعی طور پر اب تک 527 افراد جاں بحق اور لاکھوں گھر تباہ ہو چکے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان کے 2 صوبے بلوچستان اور سندھ کو بارشوں اور بدترین سیلاب نے ڈبو دیا ہے، رہائشی آبادیوں پر قیامت گزر رہی ہے، کروڑوں افراد جن میں بوڑھے، خواتین اور بچے شامل ہیں، بے آسرا کھلے آسمان تلے حکومتی مشینری اور مخیر اداروں کی امداد کے منتظر ہیں۔

پی ڈی ایم اے سندھ کی رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں تباہ کن بارشوں اور سیلاب کے باعث گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں مزید 30 افراد جاں بحق ہو گئے، جس سے صوبے میں مون سون کے آغاز سے اب تک ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 293 ہو گئی ہے۔

طوفانی بارشوں کے بعد بلوچستان کے ندی نالے بھی بپھر گئے ہیں، چمن میں 2 ڈیم مزید ٹوٹ گئے، جس سے ضلع قلعہ عبداللہ میں بارشوں سے ٹوٹنے والے ڈیمز کی تعداد 18 ہو گئی، جب کہ بلوچستان میں مون سون سیزن کی تباہی میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھ کر 234 ہو گئی ہے۔

بلوچ لڑکی سیلابی ریلے میں تباہ شدہ گھر کے ملبے سے اپنی کتابیں نکال کر صاف کر رہی ہے

 

بلوچستان میں بارشوں اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے اب تک 28 ہزار مکانات منہدم ہو چکے ہیں، اور ساڑھے 7 ہزار گھروں کو جزوی نقصان پہنچا، 710 کلو میٹر طویل شاہراہیں اور 18 پل شدید متاثر ہوئے، جب کہ ایک لاکھ سے زائد مویشی ہلاک ہوئے، درجنوں دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔

گزشتہ روز وزیر ماحولیات سندھ اسماعیل راہو نے بتایا تھا کہ ملک بھر میں شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے رواں برس ملک میں غذائی بحران کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، سندھ اور بلوچستان میں زرعی شعبے کو اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔

سندھ

صوبہ سندھ میں وقفے وقفے سے بارش کی وجہ سے آفت زدہ علاقوں کے مکینوں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں، اور متاثرہ علاقوں میں مزید تباہی پھیل گئی، شہر اور دیہات سب زیر آب آئے ہوئے ہیں، سڑکیں بہہ گئیں، ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آتی ہے اور نظام زندگی مفلوج ہو چکا ہے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق گھروں سے محروم ہونے والے لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے امداد کے منتظر ہیں، گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران سب سے زیادہ ہلاکتیں نوشہروفیروز میں ہوئیں، جہاں 11 افراد زندگیوں سے ہاتھ ڈھو بیٹھے۔

پی ڈی ایم اے سندھ کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران صوبے میں 658 مویشی ہلاک ہوئے، اور 6 ہزار 382 گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔

جانی نقصان میں لاڑکانہ میں 4، جیکب آباد میں 4، شہید بے نظیر آباد میں 3، کشمور 2، بدین میں 2، ٹنڈو محمد خان 2، دادو 1 اور سانگھڑ میں 1 شخص جاں بحق ہوا۔ جاں بحق ہونے والے 30 افراد میں سے 15 بچے، 7 مرد اور4 عورتیں شامل ہیں، جب کہ 836 افراد مختلف حادثات میں زخمی ہوئے۔ پی ڈی ایم اے سندھ کے مطابق سندھ میں مجموعی طور پر جاں بحق ہونے والوں میں 115 مرد، 45 عورتیں اور 133 بچے شامل ہیں۔

مون سون کے آغاز سے اب تک 3 ہزار 794 مویشی ہلاک ہو چکے ہیں، گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 30 ہزار گھروں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا، مون سون کے آغاز سے اب تک 1 لاکھ ساڑھے 10 ہزار گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، جب کہ 2 لاکھ 57 ہزار 671 گھر جزوی متاثر ہوئے ہیں۔

بلوچستان

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اس وقت شہری آبادیاں انسانی المیے سے گزر رہی ہیں، درجنوں دیہات کا رابطہ پوری طرح منقطع ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہاں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکا ہے۔

کوہلو میں موسلادھار بارش سے لوگ محصور ہو چکے ہیں، لینڈ سلائیڈنگ اور سڑک کے حصے بہہ جانے سے کوہلو کوئٹہ شاہراہ بند ہو گئی ہے، بیجی ندی، مجنھرا، چاکر، کالابوہلا ندی میں سیلاب آیا ہوا ہے، کوئٹہ میں وقفے وقفے سے بارش کی وجہ سے نشیبی علاقے زیر آب آ چکے ہیں، امداد نہ ملنے پر سیلاب متاثرین احتجاج پر مجبور ہو چکے ہیں۔

بلوچستان اور صوبہ میں بارشوں اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے سیکڑوں اسکول بھی تباہ ہو چکے ہیں، کہیں کہیں عارضی انتظام کے تحت نہایت خراب حالات میں بھی بچوں کی کلاسز لی جا رہی ہیں، تاہم مجموعی طور پر تعلیمی نظام مکمل طور پر رک چکا ہے۔

Comments

- Advertisement -