تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

سال 2016 تاریخ کا متواتر تیسرا گرم ترین سال

امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ سال 2016 جدید تاریخ کا گرم ترین سال تھا اور یہ مسلسل تیسرا سال ہے جس میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔

امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس بھارت، کویت اور ایران میں غیر معمولی اور قیامت خیز گرمی دیکھی گئی۔ دوسری جانب قطب شمالی میں برف پگھلنے کی رفتار میں بھی خطرناک اضافہ ہوگیا۔

مذکورہ رپورٹ کے لیے سال بھر میں زمین اور سمندر کے اوسط درجہ حرارت کا جائزہ لیا گیا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سنہ 1880 سے جب سے موسم کا ریکارڈ رکھنے کا آغاز ہوا ہے تب سے یہ تاریخ کا گرم ترین سال ہے۔

امریکی ماہرین کی اس تحقیق سے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی تیز رفتاری کی طرف پریشان کن اشارہ ملتا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل سال 2014 اور 2015 کو بھی گرم ترین سال قرار دیا گیا تاہم 2016 ان سے بھی زیادہ گرم رہا۔

earth-heat

ماہرین کا کہنا ہے کہ گو یہ اضافہ نہایت معمولی سا ہے تاہم مجموعی طور پر یہ خاصی اہمیت رکھتا ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کلائمٹ چینج کس قدر تیزی سے رونما ہورہا ہے۔

نواا کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ درجہ حرارت کا ریکارڈ 5 بار ٹوٹ چکا ہے۔ سنہ 2005، سنہ 2010، اور اس کے بعد متواتر گزشتہ تینوں سال سنہ 2014، سنہ 2015 اور سنہ 2016۔

رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں اس اضافے کی وجہ تیل اور گیس کا استعمال ہے جن کے باعث کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر زہریلی (گرین ہاؤس گیسیں) پیدا ہوتی ہیں۔

ایک اور وجہ ایل نینو بھی ہے جو سال 2015 سے شروع ہو کر 2016 کے وسط تک رہا۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بے تحاشہ تیز رفتار صنعتی ترقی بھی زمین کے قدرتی توازن کو بگاڑ رہی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں سال پچھلے سال کے مقابلے میں سرد ہونے کا امکان ہے تاہم ’لا نینا‘ کا کوئی خدشہ موجود نہیں۔ لا نینا ایل نینو کے برعکس زمین کو سرد کرنے والا عمل ہے۔

مذکورہ رپورٹ جاری کرنے والے ادارے نواا نے کچھ عرصہ قبل ایک اور رپورٹ جاری کی تھی جس میں دنیا بھر میں ہونے والے 24 سے 30 ایسے غیر معمولی واقعات کی فہرست بنائی گئی تھی جو اس سے پہلے کبھی ان علاقوں میں نہیں دیکھے گئے۔

یہ غیر معمولی مظاہر سال 2015 میں رونما ہوئے تھے۔ ان میں کراچی کے 2000 شہریوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے والی قیامت خیز ہیٹ ویو بھی شامل ہے۔

ادارے کے پروفیسر اور رپورٹ کے نگران اسٹیفنی ہیئرنگ کا کہنا تھا کہ دنیا کو تیزی سے اپنا نشانہ بناتا کلائمٹ چینج دراصل قدرتی عمل سے زیادہ انسانوں کا تخلیق کردہ ہے اور ہم اپنی ترقی کی قیمت اپنے ماحول اور فطرت کی تباہی کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔

پروفیسر اسٹیفنی کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ غیر معمولی تو ضرور ہے تاہم غیر متوقع ہرگز نہیں اور اب ہمیں ہر سال اسی قسم کے واقعات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

Comments

- Advertisement -