سال 2024 کو انتخابات کا سال کہیں تو بے جا نہیں صرف اس لیے نہیں کہ پاکستان میں الیکشن ہوئے بلکہ دنیا کے 70 سے زائد ممالک میں انتخابی دنگل سجے۔
سال 2024 بھی اختتام کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اگر اس سال میں نظر ڈالیں تو یہ ایک لحاظ سے انتخابی سال بھی نظر آتا ہے۔ اس سال پاکستان میں تو انتخابات ہوئے ہی، اس کے ساتھ ساتھ 70 سے زائد ممالک میں الیکشن کا انعقاد ہوا اور دو ارب سے زائد افراد (دنیا کی تقریباً 25 فیصد سے زائد آبادی) نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
اس سال جہاں امریکا، یورپی یونین اور روس جیسی بڑی طاقتیں انتخابی عمل سے گزریں تو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہنے والے ملک بھارت، پاکستان، برطانیہ، جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش میں بھی عوام نے ووٹ ڈالے۔
ان الیکشن کے نتائج کے بعد کہیں نئے چہرے اقتدار میں آئے تو کہیں عوام نے موجودہ حکمرانوں پر ہی اعتماد کیا۔
پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں ن لیگ بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی، تاہم سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکی۔ نواز شریف نامعلوم وجوہات کی بنا پر چوتھی بار وزیراعظم نہ بنے، بلکہ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی سربراہی میں اتحادی حکومت قائم ہوئی۔ اس کو اپنے قیام سے اب تک اپوزیشن پی ٹی آئی اور جے یو آئی کی مخالفت اور احتجاج کا سامنا ہے۔
اس سال سب سے بڑے انتخابات کا میدان بھارت میں سجا۔ جس پر 20 لاکھ کروڑ خرچ ہوئے۔ 7 مراحل اور کئی ماہ پر مشتمل انتخابی عمل کے بعد نتیجہ تو مودی کے حق میں آیا اور وہ مسلسل تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوگئے لیکن ان الیکشن میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کی بھی ایوانوں میں نمایاں واپسی ہوئی۔
سپر پاور امریکا میں انتخابات سال بھر سب کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ دباؤ بڑھنے کے باعث موجودہ صدر بائیڈن انتخابات کی دوڑ سے دستبردار ہوئے اور ان کی جگہ ڈیموکریٹس نے کاملا ہیرس کو میدان میں اتارا لیکن امریکی عوام نے اس بار حکمرانی کے لیے ٹرمپ کا انتخاب کیا اور وہ واضح اکثریت سے دوسری باری صدر منتخب ہوگئے۔
اس سال برطانیہ میں بھی انتخابات ہوئے جس میں کنزرویٹو پارٹی کو تاریخی شکست ہوئی اور لیبر پارٹی نے شاندار فتح حاصل کی۔ اس کے نتیجے میں پہلی بار مزدور کے بیٹے سر کیئر اسٹارمر برطانیہ کے وزیراعظم بن گئے۔
یوکرین سے جنگ میں مصروف روس میں بھی الیکشن ہوئے اور عوام نے پانچویں بار ولادیمیر پیوٹن کو صدر منتخب کیا۔
مئی میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد نئے صدر کے انتخاب کیلئے قبل از وقت الیکشن ہوئے۔ مسعود پزیشکیان اور سعید جلیلی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا۔ دوسرے مرحلے میں مسعود پزیشکیان فاتح قرار پائے۔
بنگلہ دیش میں اس سال کے آغاز جنوری میں الیکشن ہوئے۔ اس میں حسینہ واجد آٹھویں فتح قرار پائیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ سال کے وسط میں شروع ہونے والی طلبہ تحریک کا دائرہ ملک بھر میں پھیلا اور اس احتجاج کے نتیجے میں واجد کے 16 سالہ اقتدار کا دھڑن تختہ ہوا اور وہ اپنا اقتدار اور ملک چھوڑ کر اپنے دوست ملک بھارت فرار ہوگئیں۔ ان کے بعد طلبہ لیڈروں کی تائید سے نوبل انعام یافتہ ماہر معیشت محمد یونس نے عبوری حکومت کی سربراہی سنبھالی جو جاری ہے۔
اسی سال ایک افریقی ملک نائجر میں بھی حکومتی تبدیلی ہوئی مگر یہ کسی الیکشن کی وجہ سے نہیں بلکہ فوجی بغاوت کی صورت ہوئی۔ نائجر کی فوج نے جولائی میں صدر محمد بازوم کا تختہ الٹا اور فوجی سربراہ نے خود کو صدر مملکت قرار دیا۔