بغداد : عراق میں جاری سیاسی تعطل کے درمیان معروف مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر کے سیاست چھوڑنے کے فیصلے کے بعد پیر کے روز سے بغداد میں جاری تشدد آمیز واقعات کو روکا نہیں جا سکا ہے اور اب تک 23 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق عراق میں پھر پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے، فورسزکے ساتھ جھڑپوں کے دوران 23 افرادجاں بحق ہوگئے جبکہ 380 زخمی ہوئے ہیں۔
صورتحال کے پیش نظرمزید ہلاکتوں سے بچاو، تشدد اور ہتھیاروں کا استعمال رکنے تک مقبول سیاسی لیڈر مقتدیٰ الصدر نے بھوک ہڑتال کا اعلان کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق عراق میں فورسز اور مقتدیٰ الصدرکے حامی ایک بار پھر آمنے سامنے آگئے ہیں، خراب صورتحال کے باعث سرکاری دفاتر بند ہوگئے، شہروں میں افراترفی کا سماں ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق مقتدیٰ الصدر کا کہنا ہے کہ جب تک تشدد اور ہتھیاروں کا استعمال رک نہیں جاتا، وہ بھوک ہڑتال پر ہی رہیں گے۔
عراق کی موجودہ صورتحال پر ترکی نے شہریوں کو بغداد کا سفرکرنے سے روک دیا ہے، کویت نے اپنے شہریوں کو عراق چھوڑنے کی ہدایات جاری کردیں جبکہ ایران نے بھی اپنی سرحدیں آمدورفت کیلئے بند کرتے ہوئے فلائٹ آپریشن معطل کردیا ہے، یورپی یونین نے معاملے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز مقتدیٰ الصدر نے سیاست سے دستبردار ہونے اور اپنا سیاسی دفتر بند کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ان کے حامی سڑکوں پرنکل آئے تھے۔
مظاہرین نے بغداد کے گرین زون میں واقع اہم سرکاری عمارت ریپبلکن پیلس پر دھاوا بول دیا تھا جس کے بعد فوج نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا تھا۔
عراق صورتحال پر امریکہ کا اظہار تشویش
دوسری جانب امریکہ نے عراق کی موجودہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، اس حوالے سے وائٹ ہاوس کی قومی سلامتی کونسل کے مشیرجان کربی نے کہا ہے کہ عراق کی صورتحال کو قابو میں لانے کے لیے فریقین کے درمیان بات چیت ممکن بنائی جائے۔
جان کربی نے ویڈیو کانفرنس پلیٹ فارم زوم کے ذریعے اپنی بریفنگ میں کہا کہ بغداد کی صورتحال باعث تشویش ہے، یہ وقت کشیدگی کا نہیں مذکرات کا ہے لہٰذا امریکہ ان پر تشدد واقعات کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے