تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

جج کا بار بار رائے تبدیل کرنا اچھی مثال نہیں ہوتی، چیف جسٹس

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کا کہنا ہے کہ فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ تاخیری حربےکےعلاوہ کچھ بھی نہیں، ہم گورننس اور بحران کے حل کیلئے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کیخلاف پرویزالٰہی درخواستوں پرسماعت جاری ہے، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل عرفان قادر اور پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا، دوست مزاری کے وکیل کا کہنا تھا کہ میرےموکل کی ہدایت ہے کہ عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بننا ہم فل کورٹ کےحوالےسےفیصلےپرنظرثانی دائرکرینگے۔

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نےبھی کارروائی کےبائیکاٹ سےآگاہ کیا تو چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا کہ آپ تو کیس کےفریق ہی نہیں؟۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ تاخیری حربےکےعلاوہ کچھ بھی نہیں، ستمبرکےدوسرے ہفتےتک فل کورٹ دستیاب نہیں ,ہماری ترجیح اس معاملےکوجلد ازجلدنمٹانا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دےسکتا ہے؟ آئین پڑھنےسے واضح ہےکہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں، اس سوال کے جواب کیلئےکسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں، یہ ایسا سوال نہیں تھا جس پرفل کورٹ تشکیل دی جاتی۔

چیف جسٹس نےدوران سماعت ریمارکس دئیے کہ فریقین کےوکلا کو بتایا تھا کہ آئین گورننس میں رکاوٹ کی اجازت نہیں دیتا، صدرکی سربراہی میں انیس سو اٹھاسی میں نگران کابینہ سپریم کورٹ نےکالعدم قراردی تھی، اس پرعدالت کا مؤقف تھا کہ وزیراعظم کے بغیر کابینہ نہیں چل سکتی۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ دلائل کے دوران اکیسویں ترمیم کیس کا حوالہ دیا گیا، اکیسویں ترمیم والےفیصلےمیں آبزرویشن ہےکہ پارٹی سربراہ ووٹ کی ہدایت کرسکتاہے،آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا؟، تشریح کےوقت سوال صرف منحرف ہونے کے نتائج کا تھا، کیا سترہ میں سے آٹھ ججز کی رائےکی سپریم کورٹ پابند ہوسکتی ہے؟۔

عزت مآب چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل63اےپرفیصلہ نو رکنی ہوتا تو اکثریتی کہلاتا،عدالتی بائیکاٹ کرنیوالے تحمل کا مظاہرہ کریں،بائیکاٹ کردیا ہے تو عدالتی کارروائی کو سنیں۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل63 اے کیس میں ہدایات پر کسی وکیل نےدلیل نہیں دی تھی، عدالت کو پارٹی سربراہ کی ہدایات یا پارلیمنٹری پارٹی ڈائریکشنز پرمعاونت درکارہے۔

چیف جسٹس کی وکیل علی ظفرکو ہدایت کی کہ سوالات پرمعاونت کریں یا پھرہم بینچ سےالگ ہوجائیں، جو دوست مجھے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اپنے کام کوعبادت کا درجہ دیتا ہوں۔

دوران سماعت درخواست گزار پرویز الہیٰ کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ اکیسویں ترمیم کیخلاف درخواستیں آرٹیکل تیرہ فورکےتناسب سےخارج ہوئی تھیں، درخواستیں خارج کرنےکی وجوہات بہت سے ججزنےالگ الگ لکھی تھیں۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ اٹھارویں ترمیم کیس میں جسٹس جواد خواجہ نےآرٹیکل63اےکوخلاف آئین قراردیاتھا،ان کی رائے تھی کہ 63اےارکان کوآزادی سےووٹ دینےسےروکتاہے۔

وکیل پرویزالہٰی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جسٹس جواد خواجہ نے فیصلے میں اپنی رائےکی وجوہات بیان نہیں کیں، اسی لئے میں جسٹس جواد خواجہ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے سوال کیا کہ آئین کیا کہتا ہے کس کی ہدایات پرووٹ دیاجائے،جس پر انہوں نے بتایا کہ آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایات پارلیمنٹری پارٹی دیتی ہے، چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹری پارٹی، پارٹی سربراہ سےالگ ہے؟۔

پرویزالہٰی کے وکیل نے بتایا کہ پارلیمانی جماعت اورپارٹی لیڈردو الگ الگ چیزیں ہیں، جسٹس اعجاز نے ریمارکس دئیے کہ آئین کے تحت پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کےفیصلےپرعملدرآمدکراتاہے، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ پارلیمانی جماعت اپنے طور پر تو کوئی فیصلہ نہیں کرتی،سیاسی جماعت کا فیصلہ پارلیمانی جماعت کو آگاہ کیا جاتا ہے جس پر وہ فیصلہ کرتی ہے۔

علی ظفر نے واضح کیا کہ مشرف دورمیں پارٹی سربراہ کی جگہ پارلیمانی سربراہ کاقانون آیاتھا،18ویں ترمیم میں پرویز مشرف کے قانون کو ختم کیا گیا۔

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ پارٹی سربراہ کی کیا تعریف ہے؟ کیا پارٹی سربراہ صرف سیاسی جماعت کا سربراہ ہوتا ہے؟ جسٹس اعجازالاحسن نے بھی استفسار کیا کہ پارلیمنٹری لیڈر والا لفظ کہاں استعمال ہواہے؟

اپنے دلائل میں وکیل علی ظفرنے بتایا کہ دو ہزار دو میں پولیٹیکل پارٹیزآرڈرمیں پارلیمنٹری پارٹی کا ذکرہوا، پارلیمنٹری پارٹی کی جگہ پارلیمانی لیڈرکا لفظ محض حقائق کی غلطی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ 18ویں اور 21ویں ترامیم کےکیسزمیں آرٹیکل63کی شقوں کاجائزہ لیاگیا،آرٹیکل63اےمیں پارٹی لیڈر کا معاملہ ماضی میں کبھی تفصیل سےنہیں دیکھاگیا۔

Comments

- Advertisement -