تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

عالمی اُردو کانفرنس کا تیسرا روز، اردو افسانے پر ادیبوں اور نقادوں کا اظہار خیال

کراچی: آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں چار روزہ چودھویں عالمی اُردو کانفرنس پورے آب و تاب سے جاری ہے، کانفرنس کے تیسرے روز پہلے سیشن ”اردو افسانے کا منظرنامہ“ کا انعقاد کیا گیا، جس کی صدارت زاہدہ حنا اور عامر حسین نے انجام دی۔

”اردو افسانہ آزادی کے بعد اور اس کے امکانات“ پر خالد فتح محمد، ”پون صدی کے اردو افسانے میں ہیئت و اسلوب کے تجربات“ پر اسلام آباد سے آن لائن محمد حمید شاہد، ”آزادی کے بعد بدلتا انسانی سماج اور اردو افسانہ“ پر امجد طفیل، ”پچھتر برس میں کہانی کی تلاش“ پر اخلا ق احمد اور ”جدید افسانہ اور نئی معنوی تشکیلات“ کے موضوع پر بھارت کے شہر دہلی سے خالد جاوید نے آن لائن اظہارِ خیال کیا، نظامت کے فرائض اقبال خورشید نے انجام دیے۔

زاہدہ حنا نے کہا کہ ہم اپنے افسانوں میں مختلف شہروں اور وہاں کے رہنے والوں کا عکس دیکھتے ہیں، کئی بڑے افسانہ نگاروں نے بہت خوب صورت اور اچھے افسانے لکھے ہیں جنھیں پڑھ کر تادیر قارئین یاد رکھتے ہیں، عامر حسین نے کہا کہ افسانہ نگاری میں حقیقت نگاری کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے گزشتہ سالوں میں اردو افسانے کی ترقی کی جو بات کی جا رہی ہے وہ اردو افسانے نے اس سے پہلے ہی کر لی تھی۔

خالد جاوید نے دہلی سے آن لائن خطاب میں کہا کہ کسی بھی ادبی فن پارے میں زبان ہی وہ شے ہے جو سماج سے مکالمے کو پیش کرتی ہے، ہمارے افسانہ نگاروں نے جس چیز کو نظر انداز کیا ہے وہ افسانے کی زبان ہی ہے کیوں کہ زبان کے برتنے میں یہ نظر آ جاتا ہے کہ وہی بات کی جا رہی ہے جو نظر تو آتی تھی مگر زبان اسے کہہ نہیں پا رہی تھی، انھوں نے کہا کہ زبان کی خاموشی کو اس کا جائز مقام دینے والے افسانہ نگار بہت کم ہیں۔

اخلاق احمد نے کہا کہ ہمارے افسانہ نگار یا مختصر کہانی نویس کسی بھی دوسرے بڑے کہانی نویس سے کم نہیں ہیں، میں چالیس برس سے یہ سن رہا ہوں کہ اردو افسانہ ختم ہوگیا ہے اور یہ باتیں اب بھی جاری ہیں مگر میرا دل چاہتا ہے کہ میں یہ کہنے والوں سے سوال ضرور پوچھوں کہ انہوں نے آخری افسانہ یا کہانی کب اور کس کی پڑھی تھی۔

امجد طفیل نے کہا کہ جو قومیں اپنی ناکامی کو یاد نہیں رکھتیں وہ کبھی بھی اپنا بہتر مستقبل نہیں دیکھ سکتیں، ہجرت کے وقت جو انتقالِ آبادی ہوا اس وقت اگر ان مسائل کو درست انداز میں حل کر لیا جاتا تو وہ بحران کبھی پیدا نہیں ہوتا جس سے ہم آج بھی نبرد آزما ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سماج میں جو بھی تبدیلیاں آرہی تھیں یا جو تبدیلیاں آنے والی تھیں ہمارا افسانہ نگار انہیں پیش کر رہا تھا۔

محمد حمید شاہد نے اسلام آباد سے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پون صدی کے افسانے دیکھیں گے تو بہت کچھ بدلا ہوا نظر آئے گا جس کا ادراک سعادت حسن منٹو اور دیگر افسانہ نگاروں کو بھی تھا، انہوں نے کہاکہ افسانے کو اس کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے جب وجود ہی میں اتنی اُتھل پُتھل ہو تو وہاں ایک افسانہ نگار کس طرح لکھ سکتا ہے کہ جس کا بیانیہ بھی ہموار ہو۔

خالد فتح محمد نے کہا کہ اردو افسانہ اردو فکشن کا ایک مضبوط ستون رہا ہے، پریم چند کو جدید اردو افسانے کا جدامجد کہا جاسکتا ہے، اردو افسانے کو پریم چند نے زندگی کے ساتھ جوڑا تھا، آزادی کے پہلے دن ہی سے دھوکہ دہی کا لامتناہی سلسلہ جاری ہوا جو آج تک جاری ہے، تقسیم کے بعد افسانے میں تبدیلیاں آنا شروع ہوگئی تھیں۔

”مشتاق احمد یوسفی – سو برس“ کے عنوان سے بھی ایک سیشن کا انعقاد ہوا۔ نشست سے مستنصر حسین تارڑ اور اسلام آباد سے افتخار احمد نے آن لائن اظہارِ خیال کیا جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر فاطمہ حسن نے انجام دیے۔

مستنصر حسین تارڑ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو جاننے کے لیے اُس کے قریب رہنا ضروری نہیں، ادیب اپنے ادب کی تخلیق میں ہوتا ہے، مشتاق احمد یوسفی سے میں نے بہت کچھ سیکھا، جس طرح قرة العین اور بیدی دوسرے نہیں مشتاق احمد یوسفی بھی ایک ہی ہے۔

جس زمانے میں وہ لندن میں موجود تھے تو اُس وقت اُنھوں نے مجھے وہاں سے ایک خط ارسال کیا جو آج تک میرے پاس محفوظ ہے، انھوں نے ازراہِ تفنّن کہا کہ ہم میں سے بہت سے سینئر لوگ پڑے پڑے سینئر ہو جاتے ہیں کیوں کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ آپ کی دانش میں بھی اضافہ ہو، مشتاق احمد یوسفی نے جو لکھا وہ کمال لکھا، وہ بہت بڑے نثر نگار تھے۔

افتخار عارف نے کہا کہ ہمارے زمانے میں بڑے بڑے مزاح نگار پیدا ہوئے ہیں جنھوں نے اس شعبے میں بہت عمدہ کام کیا ہے، ان سب کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر ان سب مزاح نگاروں میں مشتاق احمد یوسفی اس طرح بڑے نظر آتے ہیں کہ دیگر میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مشتاق احمد یوسفی کے لکھے ہوئے مضامین اپنے مخصوص رنگ کے باعث مختلف اور منفرد نظر آتے ہیں ، پاکستان کی اردو کی شناخت کے جو بڑے لوگ سامنے آئے ہیں اُن میں مشتاق احمد یوسفی کا نمایاں مقام ہے۔

Comments

- Advertisement -