تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

کتھک رقص: اعضا کی شاعری کا خوب صورت انداز

فنونِ لطیفہ میں موسیقی، سُر تال اور گائیکی کے مختلف انداز کے ساتھ رقص بھی جذبات کے اظہار کی نہایت لطیف اور خوب صورت شکل ہے۔

رقص جسمانی حرکات و سکنات کی ایک پُراثر، نہایت مرصع صورت اور تفریحَ طبع کا اعلیٰ ذریعہ ہے. کلاسیکی رقص کی بات کی جائے تو اسے اعضا کی شاعری کہا جاتا ہے۔ اہلِ فن کے نزدیک رقص دماغ اور جسم کی موزوں‌ اور مترنم ہم آہنگی کا نام ہے جسے دنیا کی ہر تہذیب نے اپنایا اور اسے فروغ دیا۔

کہیں اس رقص کے ذریعے دیوتاؤں کو خوش کیا جاتا ہے تو کبھی یہ روح کی پاکیزگی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ کہیں اسے عبادت کا درجہ دیا گیا ہے تو کہیں یہ محض تفریح اور دل کے بہلانے کا سامان کرتا ہے۔

برصغیر میں کلاسیکی رقص کی ابتدا مندروں میں ہوئی، جہاں دیوی دیوتاؤں کی خوش نودی حاصل کرنے اور کہانیاں بیان کرنے کے لیے بدن بولی کا سہارا لیا گیا اور چہرے کے تاثرات سے کتھا بیان کی گئی۔ یہاں کے کلاسیکی رقص کی آٹھ بڑی اقسام بھرت ناٹیم، اوڈیسی، مانی پوری، کتھا کلی، موہِنی اٹَم، ستریہ وغیرہ ہیں جن میں سے کتھک رقص کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔

کتھک کا لفظ سنسکرت کے ‘‘کتھا’’ سے نکلا ہے، اور نام سے ظاہر ہے کہ یہ واقعات اور داستانوں مجمع کے سامنے پیش کرنے کے لیے کیا جانے والا رقص ہے۔ اس کے ذریعے زیادہ تر رزمیہ داستانوں کو بیان کیا جاتا تھا اور ہر دور میں اس کے نت نئے رنگ اور انداز سامنے آئے۔ بعد میں اسے مہارت سے تحریر بھی کیا گیا اور سیکھنے والوں نے کتاب کے ذریعے اس رقص کی تعلیم لی اور مشق کر کے کمال حاصل کیا۔

سندھ میں تہذیبی آثار سے برآمد مجسموں میں رقص کرتے ہوئے مرد اور عورتیں بھی نظر آتی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رقص اور ناچ گانا صدیوں پہلے بھی اسی طرح‌ مقبول تھا۔ مغلوں کے دور میں رقص اور خاص طور پر کتھک کی سرپرستی کی گئی. تاریخ بتاتی ہے کہ کتھک کے ماہر دربار میں حاضر رہے۔ انھیں شاہانَ وقت کی جانب سے وظائف اور تحائف دیے جاتے اور ان کے فن کو سراہا جاتا رہا۔ مغل دربار کی زینت بننے کے بعد کتھک کو ترقی اور تبدیلی کے ساتھ نئی حرکات و سکنات اور معنوی خصوصیات سے مزین کیا گیا۔ اس طرح کتھک رقص کا دامن خوش رنگ ہوتا گیا۔ نواب سید واجد علی شاہ نہ صرف اس فن کے بہت بڑے قدر داں تھے بلکہ خود بھی اس فن میں کامل تھے۔ ان کے زمانے میں اس رقص میں کئی بنیادی اضافے بھی کیے گئے۔ کتھک رقص کی کئی اصطلاحات اور بنیادی نظام انہی کی دل چسپی سے نکھرا۔

تقسیم کے بعد کتھک رقص میں کامل کہلانے والے مہاراج غلام حسین پاکستان آ گئے تھے اور 1999 تک یہاں اس فن کو زندہ رکھے رہے۔ مہاراج غلام حسین کی ایک ہونہار شاگرد ناہید صدیقی تھیں۔ ضیا دور میں ادب اور آرٹ کے مختلف شعبوں میں پابندیوں کی وجہ سے کتھک رقص کے کئی ماہر ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ آج بھی رقص اور کتھک کے حوالے سے لکھی گئی کتب میں ان کا نام محفوظ ہے۔

Comments

- Advertisement -