تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈیٹا محفوظ کرنے کیلئے شیشے کا چھوٹا سا ٹکڑا، حیرت انگیز ایجاد

لندن : برطانوی ماہرین نے لیزر کی مدد سے شیشے کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے میں غیرمعمولی طور پر بہت زیادہ زیادہ ڈیٹا محفوظ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے

عام سی ڈی جتنی شیشے کی پلیٹ میں 500 ٹیرابائٹ کا ڈیٹا محفوظ کیا جاسکے گا۔کہا جاتا ہے کہ ‘فائیو ڈی آپٹیکل سٹوریج’ کے ذریعے محفوظ کیا گیا ڈیٹا کئی ارب سال تک بھی اسی طرح محفوظ رہ سکتا ہے۔

عام طور پر ڈیٹا محفوظ کرنے کے لئے یو ایس بی، سی ڈی و دیگر کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن اب اس کے لئے شیشے کی ننھی سی پلیٹ ہی کافی ہوگی۔

غیر ملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسی شیشے کی پلیٹ کی تیاری مکمل کرلی ہے جس میں 5سو ٹیرابائٹ کا ڈیٹا محفوظ کیا جاسکے گا۔

اس ٹیکنالوجی کو فائیو ڈی آپٹیکل اسٹوریج بھی کہا جاتا ہے، اس ٹیکنالوجی کے ذریعے کئی ارب سال تک بھی ڈیٹا محفوظ رہ سکے گا۔

ڈیٹا اسٹوریج کے اس طریقے کو ’سپرمین میموری کرسٹل‘ کہا جاتا ہے جسے صرف تشہیر کی غرض سے یہ نام (فائیو ڈی آپٹیکل اسٹوریج) دیا گیا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس ٹیکنالوجی کے تحت شفاف سلیکا (شیشے) کے ٹکڑے میں پرت در پرت ڈیٹا محفوظ کیا جاتا ہے اور اس طرح بہت کم جگہ میں بہت زیادہ ڈیٹا سمویا جاسکتا ہے۔

فائیو ڈی آپٹیکل اسٹوریج ٹیکنالوجی پر پچھلے تیس سال سے کام ہورہا ہے لیکن اب تک یہ عملی میدان میں استعمال کے قابل نہیں ہوسکی ہے کیونکہ یہ مروجہ ڈیٹا اسٹوریج ٹیکنالوجیز کے مقابلے میں بہت سست رفتار ہے۔

اس سب کے باوجود یہ فائیو ڈی آپٹیکل اسٹوریج کے میدان میں ایک بڑی پیش رفت ہے جو بتدریج بہتر ہوتے ہوئے سیکڑوں ٹیرا بائٹ گنجائش والی کمرشل ڈی وی ڈیز کو حقیقت کا روپ دے سکتا ہے،  اس تحقیق کی تفصیلات ریسرچ جرنل ‘آپٹیکا’ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

Comments

- Advertisement -