معاشرے میں خواتین کو مجبوری کے تحت گھر کا گزر بسر کرنے کے لیے کئی جتن کرنے پڑتے ہیں جب جاکر وہ اپنے والدین کے لیے کچھ کما پاتی ہیں۔
ایسی ہی ایک میڈیکل کی طالبہ صائمہ ہیں جو اپنی بیمار کا علاج کروانے کے لیے جوکر بن گئی اور لوگوں کو خوش کرکے اپنے غم چھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔
صائمہ نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب جوکر کا روپ دھارا تو کچھ لوگ مجھے خواجہ سرا سمجھتے تھے تو کچھ لوگ لڑکا سمجھتے تھے اور اسی طرح کا مذاق کرتے تھے کبھی تھپڑ لگا دینا، کبھی بال کھینچ لینا میں نے یہ سب چیزیں برداشت کی ہیں۔
باہمت طالبہ نے بتایا کہ جوکر کا روپ دھارے ساڑھے چار ماہ ہوگئے ہیں، جب میں پہلی بار جوکر بنی تو کھلونے لے کر سڑک پر جارہی تھی تبھی ایک لڑکا موٹر سائیکل پر آیا اور اس نے میری وگ کو بری طرح کھینچا اور اسے اپنے ساتھ دور لے جاکر پھینک دیا۔
جب لڑکے نے وگ کھینچی تو کیچر سے بنے بال کھل گئے اور یہ بات لوگوں کو پتا چلی کہ میں لڑکی ہوں۔
واضح رہے کہ صائمہ جیسی بہت سے لڑکیاں رزق حلال کمانے کے لیے معاشرے کے مسائل کو جھیلتے ہوئے اپنے گھر والوں کی خدمت میں مصروف عمل ہوتی ہیں۔
صائمہ بھی اپنی بیمار والدہ کے علاج کے لیے جوکر کا روپ دھارے ہوئے ہیں، ہم دعا گو ہیں کہ ان کی والدہ کو اللہ تعالیٰ جلد صحت و تندرستی عطا فرمائے۔ آمین