کراچی : آرٹس کونسل کراچی میں منعقد کردہ چار روزہ نویں عالمی اردو کانفرنس آج معروف مصنف انور مقصود کے اختتامی کلمات خداحافظ کے ساتھ اختتام پذیرہوگئی۔
دنیا بھر کے اردو زبان کے ادیبوں، مصنفین، شعراء اور دانشوروں کے جھرمٹ میں جاری عالمی اردو کانفرنس یکم دسمبر سے چار دسمبر تک آرٹس کونسل میں جاری رہی جس میں معروف قلم کاروں نے مختلف مقالے پیش کیے اور زبان و ادب کے عصری تقاضوں پر سیرحاصل گفتگو کی۔
کانفرنس کے تینوں روز مختلف پروگرامز ہوئے جن میں مشاعرہ، قومی زبانوں کی ہم آہنگی ، تحریری فکر اور ”فکشن کے بدلتے قالب “ سمیت کئی اہم موضوع زیرِ بحث آئے۔
پہلا دن ….
پہلے دن افتتاحی اجلاس میں خطبہ استقبالیہ سیکرٹری محمد احمد شاہ نے پیش کیا جس کے بعد کلماتِ تشکر صدر آرٹس کونسل پروفیسر اعجاز فاروقی نے ادا کیے جب کہ تقریب کی نظامت کے فرائض ہما میر نے بہ خوبی نبھائے۔
خطبہ استقبالیہ میں محمد احمد شاہ نے آرٹس کونسل کی کارکردگی اور نویں عالمی اردو کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی جب کہ صدرآرٹس کونسل پروفیسر اعجاز فاروقی نے ملکی و غیر ملکی مہمان ادیبوں کا خصوصی شکر ادا کرتے ہوئے امید ظاہرکی کہ یہ کانفرنس بھی پچھلی تمام کانفرنسوں کی طرح کامیاب اور مفید ثابت ہو گی۔
پہلے دن شمیم حنفی اور آصف فرخی نے کلیدی مقالات پیش کیے جب کہ پہلے ہی دن کے دوسرے اجلاس میں ارشد محمود کی زیرِ صدارت فیض اور امنِ عالم پر شرکاء گراں قدر افتخارعارف، کشور ناہید، سلیمہ ہاشمی اور رضا عابدی نے سیر حاصل گفتگو کی۔
دوسرا دن …
چار روزہ عالمی اردو کانفرنس کا دوسرا روز مختص تھا اردو زبان و ادب اور اس سے متعلق اہم موضوعات کا احاطہ کرنے کے لیے، جس کا آغاز "حمد و نعت اور ہماری ادبی روایت” پر اہالیان سخن نے اپنے اپنے تاثرات پیش کر کے کیا اس کے بعد ’’زبان و ادب کا فروغ اور نصاب تعلیم‘‘ ہرماہرانہ رائے بھی دی گئی۔
دنیا بھر سے آئے مصنفین نے زبان و ادب کا فروغ اور نصابِ تعلیم جیسے اہم موضوع پر اپنے افکار پیش کیے جب کہ نعمان الحق نے ’’چی مستانہ می رود‘‘ میں غالب سے اقبال تک شعری فن اور فکر وانداز میں آئی تبدیلیوں کا احاطہ کیا۔
نئے سماجی رابطوں نے جہاں ہماری زندگی کو سہل اور دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤں میں تبدیل کردیا ہے وہیں اس کے کچھ منفی اثرات بھی رونما ہو رہے ہیں، نئے سماجی ذارئع اور ابلاغ کی صورتِ حال پر فرہاد زیدی، غازی صلاح الدین، محمد حنیف اور وسعت اللہ خان نے پُر مغز دلائل پیش کیے۔
جب کہ فواد حسن و میثم نقوی نے مشتاق احمد یوسفی کی کہانی حویلی پیش کی ساتھ ساتھ مستنصر حسین تارڑ سے ایک ملاقات از سید ندیم اصغر اور مرزا اظہربیگ سے ملاقات از آصف فرخی بھی پیش کیا گیا۔
تیسرا دن ۔۔
تیسرے روز اردو زبان اور عصر حاضر کی بدلتی ضروریات سے متعلق گفتگو کی اور جدیدیت کے بدلتے انداز سے متاثرہ ادب کو کس طرح محفوظ رکھا جا سکتا ہے اس کے عوامل پر رثا چغتائی، افضال احمد سید، اور جاذب قریشی سمیت کئی ادیبوں نے بحث میں حصہ لیا۔
اس کے علاوہ احمد ندیم قاسمی کی صد سالہ تقریبات کو بھی اجلاس کا حصہ بنایا گیا جس میں شرکاء نے قاسمی صاحب کی شخصیت اور شاعری پر روشنی ڈالی جب کہ کتابوں کی رونمائی میں اس سال شائع ہونے والی چار اہم کتابوں پر معروف تنقید نگاروں نے تبصرہ بھی کیا۔
تیسرے روز کا کامیاب ترین مرحلہ محفلِ مشاعرہ تھا جس میں ادیبوں، مصنفین، شعراء اور نثر نگارسمیت عام لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کرکے علم دوستی کا ثبوت دیا، شعراء کرام نے خوب داد سمیٹی۔
چوتھا روز ..
عالمی کانفرنس کا آخری اورچوتھے روزبچوں کے ادب کی صورتِ حال کے علاوہ فلم ٹیلی ویژن اوراسٹیج کے عصری تقاضوں پرسیرحاصل گفتگو ہوئی جب کہ فاطمہ ثریا بجیا، مصطفیٰ زیدی اور اسلم اظہر کی انمنٹ یادوں کو یادِ رفتگاں کی زینت بنایا گیا جو تقریب کے شرکاء کی آنکھوں میں نمی لائی تو ان ہی کے ادبی پارے لبوں پر مسکراہٹ لے لائے۔
عالمی کانفرنس کے اختتامی کلمات معروف ادیب انورمقصود نے بہ نام ’’خدا حافظ ‘‘ پیش کیا جس میں کہیں تو وہ طنز کی چاشنی دیتے تو کہیں گریہ کرتے نظر آئے۔
اختتامی اجلاس میں محمد احمد شاہ نے فروغ اردو ذبان و ادب، ڈرامہ، موسیقی اور فنون لطیفہ کی ترقی و ترویج کے لیے قراردادیں بھی پیش کی گئیں جنہیں شرکاء نے کثرتِ رائے سے منظور کر لیا، یوں اس اپنی نوعیت کی منفرد مگر پُروقارعالمی اردو کانفرنس کا اختتام ہوا۔