تاریخِ اسلام میں کئی ایسے مواقع آئے جب کہ اسلامی تشخص کے لیے جان و مال کی قربانی پیش کرنے کی ضرورت ہوئی۔
ماہِ محرم، رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب ہے، آپ کی شہادت سے دل حزین ہے،امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی بے مثال ہے، آپ باطل کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔
نواسہ رسول حضرت امام حسینؓ یزید کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے 2 محرم الحرام 61ہجری کو کربلا میں صف آراء ہوئے اور یزیدی فوج کی سختیاں اور اپنے 72 جانثار ساتھیوں سمیت تین دن کی بھوک پیاس برداشت کرتے ہوئے 10 محرم الحرام کو بلند درجہ شہادت پائی۔
امام جعفر صادقؓ سے روایت ہے کہ "نو محرم کے دن فوج یزید نے امام حسینؓ اور ان کے انصار کا گھیراؤ کر کے لوگوں کو ان کے قتل پر آمادہ کیا ابن مرجانہ اور عمر بن سعد اپنے لشکر کی کثرت پر خوش تھے اور امام حسینؓ کو ان کی فوج کی قلت کے باعث کمزور و ضعیف سمجھ رہے تھے، انہیں یقین ہو گیا تھا کہ اب امام حسینؓ کا کوئی یار و مددگار نہیں آسکتا اور عراق والے ان کی کچھ بھی مدد نہیں کرسکتے۔”
واقعہ کربلا نے قیامت تک کیلئے حق کی فتح اور باطل کی شکست پر مہر ثبت کردی ہے، اکسٹھ ہجری نومحرم کا دن خانوداہ رسالت اور دشت کربلا میں بھوک پیاس کا عالم تھا۔ ہزاروں سپاہیوں پر مشتمل لشکر یزید چھوٹے سے حُسینی لشکر کا گھیراو کیئے ہوئے تھا مگر وہ پھر بھی خوفزدہ تھے، سینوں میں ان کے دل وحشی بلیوں کی طرح اُچھل رہے تھے، لشکر یزید کے سالارفتح کے بعد انعام اکرام کا لالچ دے کر سپاہیوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔
دوسری طرف خیام حُسین میں حمدو ثنا خدائے بزرگ برتر تھی، دلوں اور روحوں کا اطمینان کامل تھا کہ جانتے تھے حُسین امام حق ہیں ، خیام حُسینی میں شب عاشور ، عبادت اور مناجات کی رات تھی ، قربانیوں کی تیاری کی شب تھی، جس کی قبولیت کی سند کیلئے یہی کافی ہے کہ چودہ سو سال یہ دن یزید کی شکست اور حُسین کی فتح کا اعلان کررہا ہے۔
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفےٰ کے چھوٹے نواسے علی و فاطمہ زہرا کے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ ان کے بارے میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ‘حسین منی و انا من الحسین’ یعنی ‘حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔
پیغمبراسلام کی گود میں جو اسلام کی تربیت کاگہوارہ تھی اب دن بھردو بچّوں کی پرورش میں مصروف ہوئی، ایک حسن دوسرے حسین اور اس طرح ان دونوں کا اور اسلام کا ایک ہی گہوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رہے تھے . ایک طرف پیغمبر ُ اسلام جن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی، امام حسین کی عمر ابھی چھ سال کی تھی جب انتہائی محبت کرنے والے کاسایہ سر سے اٹھ گیا۔
امام حسینؓ سلسلہ امامت کے تیسرے فرد تھے، عصمت و طہارت کا مجسمہ تھے، آپ کی عبادت, آپ کے زہد, آپ کی سخاوت اور آپ کے کمال ُاخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے، آپ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا "حسین میں میری سخاوت اور میری جراَت ہے”، چنانچہ آپ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رہتا تھا اور کوئی سائل محروم واپس نہیں ہوتا تھا، اس وجہ سے آپ کا لقب ابوالمساکین ہو گیا تھا۔
یہ بات یقیناً ناقابل ِ انکار ہے کہ امام حسینؓ کا عمل کربلا میں اسلام کی عزت اور شریعت کے دفاع کے لئے تھا اور یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی انسان رسول اکرمﷺ کی گود میں پرورش پائے اور اسلام کے زوال اور اس کی تباہی پر وہ خاموش رہے۔
امام ِ امت ہونے کی حیثیت سے یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ اسلام کے تحفظ کے لئے ضروری اقدامات کریں اور اس کی اصل و حقیقی صورت کو بحال رکھیں۔ امام حسین ؑ نے اس کام کو بخوبی انجام دیا۔