تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

جوڈیشل انکوائری کمیشن نے سانحہ اے پی ایس کو سیکیورٹی کی ناکامی قرار دے دیا

اسلام آباد : جوڈیشل انکوائری کمیشن نے سانحہ اے پی ایس کو سیکیورٹی کی ناکامی قرار دیتے ہوئے اسکول کی سیکیورٹی پر بھی سوالات اٹھا دیئے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم پر سانحہ آرمی پبلک اسکول کی کمیشن رپورٹ جاری کر دی گئی، رپورٹ پانچ سو پچیس صفحات اور چار حصوں پر مشثمل ہے۔

رپورٹ کمیشن کے سربرارہ جسٹس محمد ابراہیم خان نے مرتب کی ہے، رپورٹ میں جوڈیشل انکوائری کمیشن نے سانحہ اےپی ایس کو سیکیورٹی کی ناکامی قراردے دیا اور اسکول کی سیکیورٹی پر بھی سوالات اٹھا دیے۔

رپورٹ میں دھمکیوں کےبعد سیکیورٹی گارڈز کی کم تعداد اور درست مقامات پرعدم تعیناتی کی نشاندہی کی گئی اور کہا گیا کہ غفلت کا مظاہرہ کرنے والی یونٹ کے افسران و اہلکاروں کو سزائیں دی گئیں۔

کمیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہمارا ملک دہشگردی کے خلاف جنگ میں برسرپیکار رہا، اس دوران ملک میں دہشت گردی اپنے عروج پر پہنچی، اس کے باوجود ہماری حساس تنصیبات یا سافٹ ٹارگٹس پر ہونے والے حملوں کو جنگ کا جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہمارا شمال مغربی بارڈر بہت وسیع اور غیر محفوظ ہے، شمال مغربی بارڈر سے حکومت اور بین الاقوامی معاہدوں کے تحت مہاجرین کی آمد و رفت جاری رہتی ہے، ان حقائق کے باوجود انتہا پسند عناصر کو مقامی آبادی کی طرف سے مدد فراہم کیے جانا ناقابلِ معافی جرم ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب اپنا ہی خون دغا دے تو ایسے ہی تباہ کن سانحات رونما ہوتے ہیں، ایسے عناصر کی وجہ سے ناصرف محدود وسائل میں کیے سیکیورٹی انتظامات ناکام ہوتے ہیں بلکہ دشمن کو ناپاک عزائم پورے کرنے میں مدد ملتی ہے، اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی ایجنسی چاہے کتنے ہی وسائل کیوں نہ رکھتی ہو ایسے واقعات روکنے میں ناکام ہو جاتی ہے جب اندر سے ہی مدد فراہم کی گئی ہو۔

کمیشن رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی کی تین پرتیں جن میں گیٹ پر موجود گارڈز، علاقے میں پولیس گشت اور کوئیک رسپانس فورس کی دس منٹ کے فاصلے پر موجودگی اس دھویں کی طرف متوجہ ہو گئی جو منصوبے کے تحت ایک گاڑی کو آگ لگانے کی وجہ سے اٹھا، نتیجتاً سکیورٹی کی توجہ آرمی پبلک سکول سے ہٹ گئی اور دہشت گرد اسکول میں داخل ہو گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اسکول کے پیچھے گشت پر موجود فورس جلتی ہوئی گاڑی کی جانب چلی گئی جبکہ سیکیورٹی فورسز کا دوسرا دستہ بروقت سکول کی حفاظت کو نہ پہنچ سکا، دوسرا دستہ ریپڈ رسپانس فورس اور کوئیک رسپانس فورس کے آنے تک دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہا اور نتیجتاً اندوہناک سانحہ رونما ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حملے سے متعلق نیکٹا نے وارننگ جاری کر رکھی تھی، نیکٹا وارننگ کے مطابق دہشت گرد آرمی پبلک سکول کو نشانہ بنا سکتے تھے، وارننگ کے مطابق دہشت گردوں کا مقصد فوجیوں کے بچوں کو نشانہ بنانا تھا، نیکٹا نےعسکری مراکز، حکام اوران کی فیملیز پر حملوں کاعمومی الرٹ جاری کیا۔

کمیشن رپورٹ میں کہا گیا کہ نیکٹاالرٹ کے بعد فوج نے دہشت گردوں کیخلاف کارروائیاں شروع کیں ، دہشتگرد پاک فوج کو آپریشن ضرب عضب اور خیبر ون سے روکنا چاہتے تھے، اگرچہ پاک فوج ضربِ عضب میں کامیاب رہی لیکن سانحہ اے پی ایس نے اس کامیابی کو داغدار کر دیا۔

رپورٹ میں کہا ہے کہ اس واقعہ نے ہمارے سکیورٹی نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، سیکیورٹی پر تعینات اہلکار نا صرف آنے والے حملہ اوروں کو روکنے کے ناکافی تھے بلکہ ان کی پوزیشن بھی درست نہیں تھی۔ سکیورٹی کی تمام توجہ مین گیٹ پر تھی جبکہ اسکول کا پچھلے حصے پر کوئی سیکیورٹی تعینات نہیں تھی جہاں سے دہشت گرد بغیر کسی مزاحمت کے اسکول میں داخل ہوئے، گارڈز نے مزاحمت کی ہوتی تو شاید جانی نقصان اتنا نہ ہوتا۔

کمیشن رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی پر مامور گارڈز کی صلاحیت دہشت گردوں کو روکنے کے لیے ناکافی تھی، کوئیک رسپانس فورس اور ایم وی ٹی۔2 کے اہلکاروں نے بچوں کے بلاک کی طرف بڑھتے ہوئے دہشت گردوں کی پیش رفت روکا۔

رپورٹ کے مطابق ایم وی ٹی۔1 کو غفلت برتنے پر تحقیقات کے بعد سزا دی جا چکی ہے۔

Comments

- Advertisement -