تازہ ترین

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

فنِ خطّاطی میں موجد و مجتہد کا مقام پانے والے عبدالمجید پرویں رقم کا تذکرہ

نستعلیق کے خطاطوں میں خطاطِ مشرق عبدالمجید پروین رقم کا نام آج بھی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ قیامِ پاکستان سے ایک برس پہلے 1946ء میں آج ہی کے دن دارِ بقا کو چل دیے تھے لیکن ان کی ایجاد و طرز اور ان کا کام برسوں بعد بھی ہر خطاط کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

عبدالمجید پرویں رقم کا شمار نادرِ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ بیسویں صدی میں فنِ‌ خطّاطی اور خوش نویسی میں‌ جن شخصیات نے نام و مرتبہ پیدا کیا، ان میں عبدالمجید پروین رقم بھی شامل ہیں جنھوں نے صرف 45 برس کی عمر پائی، لیکن اس فنِ لطیف میں ان کے کار ہائے نمایاں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

ان کا سب سے بڑا کارنامہ فارسی رسمُ الخط میں الف سے لے کر ی تک تمام حروف میں خوب صورت ترامیم تھا جسے اس زمانے میں سبھی نے سراہا اور تسلیم کیا۔ عبدالمجید پروین رقم نے نہ صرف انفرادی حروف کے حسن کو دوبالا کیا بلکہ حروف کے پیوند اور جوڑ بھی اُن کی مشّاق انگلیوں سے مستفید ہوئے اور انھوں نے اردو میں حروف کے ایک ایک شوشے کو نزاکتوں اور لطافتوں سے مزین کیا۔

پرویں رقم 1901ء میں پنجاب کے ایک ایسے گھرانے میں‌ پیدا ہوئے جو پشت در پشت اس فن سے وابستہ تھا۔ ان کے والد مولوی عبد العزیز بھی ایک مشہور خطاط تھے۔

فنِ کتابت سے محبّت انھیں ورثہ میں ملی تھی۔ لڑکپن ہی سے حروف کی نوک پلک سنوارنے میں دل چسپی لینے لگے اور ساتھ ہی دینی تعلیم بھی مکمل کی۔ فارسی کا درس بھی لیا اور شمسی رسمُ الخط میں وہ کمال پیدا کیا جو آپ ہی کا خاصہ ہے۔ اسی عرصۂ تربیت میں‌ شفاء الملک حکیم فقیر محمد چشتی سے ملاقات ہوئی، جو حاذق طبیب ہونے کے ساتھ صاحب طرزِ ادیب، مصوّر اور نستعلیق طرزِ کتابت میں باکمال تھے۔ انھوں نے نہ صرف پرویں رقم کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کی کتابت میں‌ راہ نمائی بھی کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پرویں رقم قدیم و جدید رسمُ الخط میں پختہ و مشاق ہوگئے، یہاں تک کہ بعد کے برسوں میں نئی طرز کے موجد بنے جو بہت مقبول ہوا۔ ان کے خطاطی کے فن میں ایجاد و مہارت کو اساتذہ اور ہم عصر کاتبوں نے تسلیم کیا۔

پرویں رقم باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ طبیعت میں بناوٹ اور تکلف نہ تھا، سبھی سے بڑے خلوص سے ملتے تھے۔ کسرِ نفسی سے کام لیتے تھے۔

انھوں نے خطِ نستعلیق کو ایک جدید اور دل کش طرزِ نگارش سے آراستہ کیا تھا اور اس فن میں‌ مجتہد کہلائے اور یہی سبب تھا کہ ان کی وفات پر اس زمانے کے اخبارات اور ریڈیو پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان میں خطاطی اور کتابت کے میدان میں پرویں رقم کی کاوشوں اور خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا۔ پرویں رقم نے کلامِ اقبال کی خطاطی بھی کی جس پر خود شاعرِ مشرق نے انھیں سراہا تھا۔

Comments

- Advertisement -