تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

محسنِ پاکستان کا دینی ذوق و شوق اور ملک و قوم کے لیے دردمندی، شخصیت کا ایک منفرد پہلو

محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی حیات و خدمات، بالخصوص جوہری سائنس دان کی حیثیت سے ان کا وہ کارنامہ جس نے ہماری سرحدوں کا دفاع مضبوط اور اسے ناقابلِ تسخیر بنا دیا، اس سے قوم کا بچّہ بچّہ واقف ہے۔

جوہری قوّت کے حامل ممالک کی فہرست میں شامل پاکستان آج خطّے میں امن کے فروغ کے لیے اپنی مثالی کوششوں کے لیے پہچانا جاتا ہے اور ہمسایہ ممالک سے قریبی اور برادرانہ تعلقات کا خواہاں آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ اسی وطن کی بقا و سالمیت کو یقینی بنانے اور ملک دشمن قوّتوں کے مذموم مقاصد کو خاک میں ملا دینے والے ڈاکٹر عبدالقدیر کو پاکستان میں ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ وہ ایک محبوب شخصیت کے طور پر ہمیشہ قوم کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

انھیں پاکستان کی سلامتی کی علامت سمجھا جاتا ہے، جب کہ ان کے رفقا اور دیگر قریبی ساتھی انھیں ایک بہترین منتظم، دور اندیش اور ایک ایسے شخص کے طور پر یاد کرتے ہیں جو حقیقی معنوں میں قوم کا درد رکھتے تھے۔ وہ پاکستان کو معاشی طور پر نہایت مضبوط، عوام کو خوش حال اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتے تھے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حالاتِ زندگی اور خدمات کی تفصیل ذرایع بلاغ کی بدولت آج آپ تک پہنچتی رہی ہیں، لیکن اے آر وائی کی اس خصوصی رپورٹ میں آپ قوم کے اس عظیم سپوت کی زندگی کے اُس پہلو سے آشنا ہوں گے، جس کو سمجھ کر اور اس پر عمل کرکے شاید ہم ان کے احسانات کا بدلہ اتار سکتے ہیں۔

محسنِ پاکستان غور و فکر کے عادی، مطالعہ کے شوقین تھے جنھوں نے دین و مذہب کی تعلیمات کے ساتھ اسلامی تاریخ اور اکابرین و اسلاف کے کارناموں اور ان کی ہدایات اور اقوال کو نہ صرف اپنی راہ نمائی کا ذریعہ سمجھا بلکہ اسے قوم کے لیے بھی مشعلِ راہ قرار دیا۔

وہ اپنی گفتگو اور تحریروں میں قرآن و سنّت کے احکامات، بزرگوں کی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے اخلاقی حالت بہتر بنانے، عملی زندگی میں دیانت اور راست گوئی کو اپنانے کا درس دیتے رہے۔ یہاں ہم اُن کے چند کالموں سے اقتباسات نقل کررہے ہیں جن سے قارئین دینی اور اخلاقی تعلیمات سے ان کے لگاؤ، اسلامی تاریخ سے گہرے شغف اور قوم کے لیے ان کی درد مندی اور تڑپ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

عبدالقدیر خان اردو اور فارسی ادب کے بھی شائق تھے جس کا اظہار ان کی اس تحریر سے ہوتا ہے۔

وہ لکھتے ہیں: بچپن میں گرمیوں کی چھٹیوں میں فرش پر بیٹھ کر، لیٹ کر، الف لیلیٰ، طلسم ہوشربا، فسانہ آزاد اور صحرا نورد کے خطوط پڑھتے تو بہت مزہ آتا تھا۔ پہلی تینوں کتب بہت پرانی اور بہت ضخیم تھیں۔ آخری ذرا کتاب نما تھی۔ الف لیلیٰ میں ایک ہزار ایک کہانیاں ہندوستان، ایران اور عرب کے بارے میں ہیں، ان میں مشہور قصّے الہ دین اور جادو کا چراغ، علی بابا چالیس چور اور سند باد جہازی کے ہیں۔ اس میں چین کے قصّے کہانیاں بھی شامل ہیں۔

پہلی کتاب کا حوالہ نویں صدی عیسوی کا ہے۔ طلسم ہوشربا 100 برس سے زیادہ پرانی ہے اور اس کو محمد حسین نے چار حصوں میں لکھا ہے جو نہایت لاجواب کتاب ہے۔ فسانہ آزاد پنڈت رتن سرشار نے لکھی ہے۔ صحرا نورد کے خطوط، نہایت دل چسپ، ہمارے اپنے مصنف مرزا ادیب کی گل فشانی ہے مگر ان سب کتابوں کے باوجود مجھے شیخ سعدیؒ کی گلستان اور بوستان بے حد پسند تھیں اور ہیں۔

عبدالقدیر خان مزید لکھتے ہیں:‌ اسکول میں فارسی بھی پڑھتا تھا، اس لیے اس سے بہت انسیت ہوگئی کہ ہر حکایت دل چسپ اور سبق آموز ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان اکثر کالموں میں اخلاقی اور سبق آموز واقعات، حکایات بیان کرتے ہیں اور اس بابت بتاتے ہیں: شیخ مصلح الدین سعدی شیرازیؒ کے بارے میں اکثر آپ کی خدمت میں معروضات پیش کرتا رہا ہوں۔ دیکھیے میں اس لیے ان کی حکایات اور نصیحتیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں کہ یہ بے حد مفید اور سبق آموز ہوتی ہیں اور نہ صرف حکم رانوں بلکہ عوام کے لیے بھی ان میں نہایت مفید ہدایتیں موجود ہوتی ہیں۔ سیاست پر تو ہرایک ہی لکھ لیتا ہے میں یہ حکایتیں اور نصیحتیں عوام اور حکم رانوں کی اخلاقی اصلاح کے لیے پیش کرتا ہوں کہ ممکن ہے کہ ﷲ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور ان کی دین و دنیا سنور جائیں۔

کسی حکومت میں عمّال اور مشیران کو کیسا ہونا چاہیے، اس بارے میں انھوں نے اپنی ایک تحریر میں لکھا: جو ہدایات میں لکھ رہا ہوں یہ نظام الملک طوسی کی کتاب سیاست نامہ سے ہے جس کا ترجمہ جناب شاہ حسن عطا نے کیا ہے۔ حکومت کا ہر عامل اور کارکن ایسا ہونا چاہیے کہ وہ حکم ران کا رعب اور دبدبہ تسلیم کرے اور اس سے ڈرتا رہے، البتہ مشیر بے تکلّف ہو سکتا ہے۔ اس بے تکلفی اور گستاخی میں حکم ران کو لذّت اور حلاوت ملتی ہے۔ اور اس کی طبعِ شاہانہ میں انبساط اور موزونیت پیدا ہوتی ہے۔ مشیروں کے لیے ایک خاص وقت مقرر ہوتا ہے۔ ان کا وقت وہ ہوتا ہے جب حکم راں بارِ عام دے چکا ہو اور عمائدینِ سلطنت سب ہی جا چکے ہوں۔

قارئین، ان منتخب پاروں کے بعد محسنِ پاکستان کے چند کالموں کے عنوانات پڑھ کر آپ اُن کی دینی فکر، فرد کے اخلاق و کردار کی اصلاح و بہتری کے لیے اُن کی تڑپ اور اس کے ذریعے معاشرے میں سدھار کی خواہش سے آگاہ ہوسکیں گے۔ ملاحظہ کیجیے۔

رسول ﷺ کی عاداتِ مبارکہ اور سائنسی ثبوت
ریاستِ مدینہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ
کم بولنے اور خاموشی کے فوائد
عدل، تدبیر اور رائے
صبر، قناعت، قسمت، ثابت قدمی
اچھے رفقائے کار کی اہمیت

اس کے علاوہ انھوں نے کئی سیاسی اور اہم تاریخی واقعات، مختلف موضوعات پر کتابوں کا تعارف اور شخصیات کا تذکرہ بھی اپنی تحریروں میں کیا جن کا مقصد دینی و ملّی پیغام عام کرنا، معاشرتی شعور اور آگاہی دیتے ہوئے قوم میں تعمیر و ترقی کا شوق بیدار کرنا تھا۔

Comments

- Advertisement -