تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

راج ہنس کی کہانی

راجہ کا ایک باغ تھا۔ اس کے بیچ میں ایک تالاب تھا۔ وہ تالاب بڑا اور گہرا بھی تھا۔ اس کا پانی ایسا سفید تھا جیسے دودھ۔ اس کے کنارے سبزہ تھا، اور اس سبزے میں رنگ رنگ کے پھول تھے۔

راجہ اپنی رانی کے ساتھ ہر روز شام کو سیر کرنے وہاں جاتا تھا۔ رانی کو بھی یہ باغ اچھا لگتا تھا۔

ایک دن رانی نے راجہ سے کہا، ’’راجہ جی! یہ باغ اچھا ہے۔ یہ تالاب بڑا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو، آپ ایک خوب صورت ہنس اور ایک خوب صورت ہنسنی پال لیں۔ ہنس تالاب میں تیرے گا اور ہنسنی بھی تالاب میں تیرے گی۔‘‘

راجہ جی نے کہا۔ ’’بہت اچھا، ایسا ہی کریں گے۔‘‘ کچھ دنوں کے بعد راجہ کو ایک بڑا ہنس ملا، ایک بڑی ہنسنی ملی۔ راجہ نے ان کو بڑے شوق سے پالا۔ ہنس بھی خوب صورت تھا۔ اور ہنسنی بھی خوب صورت تھی۔ ان کے پَر ایسے سفید تھے جیسے برف۔ ان کی دیکھ بھال ایک لڑکا کرتا تھا۔ اس لڑکے کا نام جگو تھا۔ جگو بڑی ہوشیاری سے ان کی رکھوالی کرتا تھا۔

ایک دن ہنسنی نے ایک بڑا گول گول سفید انڈا دیا۔ وہ انڈا خوب صورت تھا۔ جگو نے انڈا راجہ کو دکھایا۔ رانی کو دکھایا۔ دونوں خوش ہوئے۔ راجہ نے جگو کو انعام دیا۔ جگو بھی خوش ہوا۔

جگو ایک ٹوکرا لایا۔ نرم نرم گھاس لایا۔ گھاس کو ٹوکرے میں رکھا۔ پھر ٹوکرے کو ایک کونے میں حفاظت سے رکھا۔ ہنسنی نے کل سات بڑے بڑے انڈے دیے۔ جگو ان کو ہوشیاری سے اٹھاتا اور ٹوکرے میں رکھتا جاتا۔ وہ ان کو سجا سجا کر رکھتا۔ پہلا انڈا بیچ میں رکھا۔ باقی چھ انڈے اس کے چاروں طرف اس طرح رکھے جس طرح ننھے منے بچے گھیرے کا کھیل کھیلتے ہیں۔

ایک دن ہنسنی اپنے انڈے تلاش کرنے لگی۔ تلاش کرتے کرتے تھک گئی مگر اسے نہ ملے۔ وہ سارا دن اداس اداس سا رہی۔ نہ کچھ کھایا نہ پیا، نہ انڈا ہی دیا۔ وہ تالاب کے کنارے پروں میں منہ چھپا کر بیٹھ گئی اور ہنس بھی چپ چاپ اس کے قریب ہی قریب ٹہلنے لگا۔ جگو سمجھ گیا۔ وہ ہنسنی کو انڈوں کے پاس لے گیا۔ ہنسنی ان کو دیکھ کر خوش ہوئی اور ’’ہنس ہنس ‘‘ بولنے لگی۔

ہنسنی اسی دن سے انڈوں کو سینے لگی۔ ایک مہینے تک ان انڈوں کو سیتی رہی اور ہنس ٹوکرے کے چاروں طرف پھرتا رہا۔ ایک دن جگو صبح سویرے اٹھا۔ دیکھا کہ منّے مُنّے ہنس ہنسنی کے پیچھے پیچھے چل پھر رہے تھے۔ اب اس تالاب میں ہنسوں کا بڑا سا خاندان ہوگیا۔

راجہ بہت سے ہنس دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا اور جگو کو انعام دیتا۔ جب تک راجہ جیتا رہا یہی ہوتا رہا۔ اس وقت بھی اگر تم اس تالاب کے کنارے جا کر دیکھو تو تم کو اس ہنس اور ہنسنی کے بیٹوں اور بیٹیوں کے بچّے تیرتے ملیں گے۔ اس تالاب پر ان کا راج ہے اور ان کا رکھوالی کرنے والا جگو کا بیٹا بھگو ہے۔

(اس کہانی کے خالق عبد الواحد سندھی ہیں جو بچّوں کے بڑے ادیب شمار کیے جاتے ہیں)

Comments

- Advertisement -