تازہ ترین

علی امین گنڈاپور وفاق سے روابط ختم کر دیں، اسد قیصر

اسلام آباد: رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد قیصر نے...

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

ابراہم لنکن‘ موچی سے امریکا کے سولہویں صدر کےعہدے تک

امریکا کے سولہویں صدر ابراہم لنکن آہنی عزم کی ایک شاندار مثال ہیں، وہ 12 فروری 1809 کو امریکا میں ایک جوتے بنانے والے شخص کے گھر میں پیدا ہوئے، ان کی قیادت میں امریکا خانہ جنگی سے باہر نکلا۔

ابراہم لنکن نے اپنی زندگی کی ابتدا سے لےکر آخری لمحے تک جاں توڑ محنت کی تھی ، انہوں نے اپنے والد کے ہمراہ امریکی امراء کے لیےجوتے بھی تیار کیے، بطور ڈاکیا اور کلرک انتھک محنت کی، اپنی ذاتی کاوشوں سے قانون کا امتحان پاس کیا اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔

آہستہ آہستہ اپنی منزل کی جانب قدم بڑھاتے ابراہم لنکن ایک دن امریکی کانگریس کے رکن بھی منتخب ہوگئے۔ سنہ 1856ء میں وہ امریکا کی ڈیموکریٹس پارٹی میں شامل ہو ئے اور سنہ 1860ء میں امریکا کے سولہویں صدر منتخب ہوئے ۔ ان کی قیادت میں امریکا خانہ جنگی سے باہر آیا اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوا، 1864ء میں وہ دوبارہ امریکی صدر منتخب ہوئے ، تاہم 15 اپریل سنہ 1865 کو انہیں قتل کردیا گیا۔

اس وقت امریکی سینٹ میں جاگیرداروں، تاجروں ، صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کا قبضہ تھا، یہ لوگ سینٹ میں اپنی کمیونٹی کے مفادات کی حفاظت کرتے تھے۔ ابراہم لنکن صدر بنے تو انہوں نے امریکہ میں غلامی کا خاتمہ کر دیا، اس کے لیے انہوں نے ایک صدارتی ایک فرمان کے ذریعے باغی ریاستوں کے غلاموں کو آزادکر کے فوج میں شامل کیا جس کے دو ررس اثرات مرتب ہوئے۔

امریکی اشرافیہ لنکن کی اصلاحات سے براہ راست متاثر ہو رہی تھیں چنانچہ یہ لوگ ابراہم لنکن کیخلاف ہو گئے تھے اور مضحکہ اڑانے سے بالکل نہیں چوکتے تھے، ان کی صدارت سے متعلق ایک واقعہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جب وہ بطور صدر حلف اٹھانے کےبعد پہلے صدارتی خطاب کے لیے آئے تو ایک سینیٹر اپنی نشست سے اٹھا اور ابراہم لنکن سے مخاطب ہو کر بولا، ’’لنکن! صدر بننے کے بعد یہ مت بھولنا تمہارا والد میرے خاندان کے جوتے سیتا تھا‘‘۔ یہ فقرہ سن کر پورے سینٹ نے قہقہ لگایا۔ لنکن مسکرائے اور سیدھے ڈائس پرآگئے اور اس رئیس سنیٹر سے مخاطب ہو کر کہا کہ۔۔

’’سر! میں جانتا ہوں میرا والد آپ کے گھر میں آپ کے خاندان کے جوتے سیتا تھا اور آپ کے علاوہ اس ہال میں موجود دوسرے امراء کے جوتے بھی سیتا رہا لیکن آپ نے کبھی سوچا امریکہ میں ہزاروں موچی تھے مگر آپ کے بزرگ ہمیشہ میرے والد سے جوتے بنواتے تھے کیوں؟ اس لئے کہ پورے امریکہ میں کوئی موچی میرے والد سے اچھا جوتا نہیں بنا سکتا تھا، میرا والد ایک عظیم فنکار تھا، اس کے بنائے ہوئے جوتے محض جوتے نہیں ہوتے تھے، وہ ان جوتوں میں اپنی روح ڈال دیتا تھا، میرے والد کے پورے کیریئر میں کسی نے ان کے بنائے ہوئے جوتے کی شکایت نہیں کی، آپ کو آج بھی میرے والد کا بنایا جو تا تنگ کرے تو میں حاضر ہوں، میں بھی جو تا بنانا جانتا ہوں، میں آپ کو اپنے ہاتھوں سے نیا جوتا بنا کر دوں گا لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے کوئی میرے والد کے کا م کی شکایت نہیں کرے گا کیونکہ پورے امریکہ میں میرے والد سے اچھا موچی کوئی نہیں تھا۔ وہ ایک عظیم فنکار، ایک جینئس اور ایک عظیم کاریگر تھا اور مجھے اس عظیم موچی کا بیٹا ہونے پر فخر ہے‘‘۔

امریکی صدر ابراہم لنکن نے حبشیوں کو غلامی سے آزاد کرانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں ، اور بالاخر سنہ 1863 میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے انہیں آزاد قرارد یا۔ ان کا ماننا تھا کہ انسان کا اپنےجیسے انسان کی غلامی میں ہونا غیر فطری ہے۔

ان کے کارناموں میں نہ صرف غلامی کا خاتمہ شامل ہےبلکہ انہوں نے امریکی تاریخ کےمشکل ترین دور یعنی خانہ جنگی کے دور میں مرکز کو سنبھالے رکھا اور خانہ جنگی کو خاتمے کی جانب لے کر گئے، یاد رہے کہ اس جنگ کا شمار تاریخ کے خونی ترین خانہ جنگیوں میں ہوتا ہے۔

دریں اثناء جنگ کے ساتھ ساتھ انہوں نے آئینی اور سیاسی بحرانوں کا بھی سامنا کیا اور مدبرانہ انداز میں ان کا حل نکالا۔ ان کی دانشمندانہ قیادت کے سبب امریکی یونین ( ریاست ہائے متحدہ امریکا) اپنا وجود برقرار رکھ سکی، غلامی کا خاتمہ ہوا اور وفاق کو استحکام ملا۔

بات یہی نہیں ختم ہوتی بلکہ امریکا کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے ملکی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کیا، جن کی مدد سےامریکا آنے والی چند دہائیوں میں سپر پاور کے رتبے پر فائز ہوگیا، اور آج تک اس اسٹیٹس کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔

15 اپریل 1865 ، امریکی صدر ابراہم لنکن کو واشنگٹن میں اس وقت گولی مار دی گئی جب وہ ایک تھیٹر میں ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔ وہ موقع پر ہلاک ہو گئے اور امریکہ میں ایک ہلچل مچ گئی۔

غالب امکان یہی کیا گیا کہ صدر کا قاتل ایک امریکی اداکار جان بوتھ تھا جس نے یہ حرکت اکیلے ہی کی تھی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ قتل ایک باقاعدہ سازش کے تحت کیا گیا تھا جس میں 8 افراد شامل تھے اور صرف صدر ہی نہیں بلکہ نائب صدر اور سیکرٹری آف سٹیٹ کو بھی مارنے کی سازش تیار کی گئی تھی۔

کوہ رشمور پر تراشا گیا ابراہم لنکن کا مجسمہ

ابراہم لنکن ان چارامریکی صدورمیں شامل ہیں جنہیں اپنے عہدہ صدارت کے دوران قتل کردیا گیاتھا۔ ابراہم لنکن کے قاتل جان ولکس بوتھ نامی کواس قتل کے بارہ روز بعد امریکی اہلکاروں نے ہلاک کر دیا تھا۔

اس سازش میں شریک افراد میں سے چار کو سزائے موت اور دوسرے چار افراد کو مختلف میعاد کی سزائیں دی گئی تھیں۔لنکن کے قتل کی سازش پر ایک فلم’دی کانسپریٹر‘ کے نام سے بنائی گئی تھی جس کا افتتاحی شو اسی تھیٹر میں منعقد کیا گیا جہاں ابراہم کا قتل ہوا تھا۔ لنکن ان چند افراد میں شامل ہیں جن پر بلاشبہ ہزار سے زائد کتب تحریر کی گئی ہیں۔

Comments

- Advertisement -
فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں