تازہ ترین

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

وفاقی حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی اجازت دے دی

وفاقی حکومت نے برآمد کنندگان کو آٹا برآمد کرنے...

مولانا آزاد اور سنیچر کی شام

مولانا (ابوالکلام آزاد) سے میری رسمی ملاقاتیں تو 1934ء سے پہلے بھی ہوئیں لیکن پہلی ملاقات جسے ہم باضابطہ تعارف کہہ سکتے ہیں وہ اس وقت ہوئی جب کہ میں آل انڈیا اردو لٹریری کانفرنس کلکتہ کی مجلسِ استقبالیہ کے صدر کی حیثیت سے مولانا کو کانفرنس کی شرکت کے لیے دعوت دینے گیا اور رخصت ہوتے ہوئے مولانا سے پھر حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔

مولانا نے بڑی شفقت کے ساتھ اجازت دی اور کہا کہ بھئی سنیچر کی شام کو آؤ، روزہ رکھتے ہو یا نہیں رکھتے ہو لیکن میرے ساتھ افطار کرو۔ پھر مسکرا کر کہنے لگے کہ تم اتنے بد ذوق تو ہو نہیں کہ اگر روزہ نہ رکھتے ہو تو افطار سے بھی پرہیز کرو۔ میں نے تسلیم کیا اور آئندہ حاضر ہونے کا وعدہ کر کے چلا آیا۔

تیسرے دن حاضر ہوا۔ مولانا کو اطلاع کرائی۔ مولانا نیچے اترے اس حال میں کہ افطار کا خوان ان کے پیچھے پیچھے ایک ملازم کے ہاتھوں میں تھا۔ افطار کے بعد چائے آئی اور مولانا نے خود اپنے ہاتھوں سے چائے کی ایک پیالی بنا کر میری طرف سرکائی۔ مجھے اس دن زکام کی شکایت تھی۔ میں نے عذر کیا۔

میرے اس عذر پر مولانا کچھ گھبرا سے گئے اور کہنے لگے آپ چائے بالکل نہیں پیتے ہیں یا اس وقت کسی خاص وجہ سے نہیں پی رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ جی نہیں، پیتا تو ہوں۔ اور شوق سے پیتا ہوں لیکن اس وقت زکام میں مبتلا ہوں۔ یہ سن کر اک ذرا بلند آواز سے فرمایا کہ الحمدللہ! میں نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ مولانا خدا کا شکر تو بہرحال کرنا چاہیے مگر اس وقت الحمدُللہ کہنے کا کوئی خاص سبب؟ کہنے لگے بھئی معاملہ یہ ہے کہ ایسے لوگ جو چائے پینے سے پرہیز کرنے والے تھے جب جب میری زندگی میں آئے تو میرے لیے خطرناک ثابت ہوئے اور میں ایسے لوگوں سے ڈرنے لگا جو چائے جیسی نعمت سے پرہیز کرتے ہوں۔ یہ معلوم کر کے کہ تم چائے ایک خاص وجہ سے نہیں پی رہے ہو اطمینان سا ہوا اور میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔

اس کے بعد کچھ علمی بحثیں چھڑ گئیں جن کو اگر یہاں چھیڑا جائے تو اس مضمون کا سلسلہ اتنا دراز ہو کہ ایک چھوٹی سی کتاب بھی اس کے لیے کافی نہ ہوسکے ۔ یہ تو معلوم ہے کہ مولانا علم و فضل کے اتھاہ سمندر تھے اور اس کی ہر موج طوفانی ہوا کرتی تھی، ہم نے چار پانچ سال مولانا کی خدمت میں بیٹھ کر مختلف علوم و فنون پر ان کی بصیرت افروز گفتگو سنی اور اپنی معلومات کی خالی جھولیاں بھرتے رہے لیکن میں اس مقالے میں مولانا کی علمی شخصیت سے گفتگو نہیں کروں گا۔ اس لیے کہ اس پر مجھ سے بہتر لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں اور کررہے ہیں۔ میں صرف اس مضمون میں مولانا کی نجی صحبت کی ایک ہلکی سی تصویر کشی کروں گا اور ان کے سنجیدہ مزاح کے بعض نمونے سنا کر مولانا کی یاد تازہ کروں گا؛

تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را

مولانا سے اس پہلی باضابطہ ملاقات کے بعد میں نے اکثر و بیشتر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہنے کی اجازت چاہی اور یہ بھی پوچھا کہ اگر خاطرِ اقدس کو ناگوار نہ ہو تو بعض اور خوش ذوق احباب کو بھی ساتھ لاؤں۔ مولانا نے فرمایا کہ بھئی ناگوارِ خاطر ہونے کی کیا بات ہے میں تو خود چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے نوجوانوں سے باتیں کرنے کا موقع ملے تاکہ یہ اندازہ ہو کہ ہندوستان کی آئندہ نسلیں کیسی تیار ہورہی ہیں۔ تم آؤ اور ضرور آؤ، اپنے دوستوں کو بھی ساتھ لیتے آؤ۔ سنیچر کی شام میری ہمیشہ خالی رہتی ہے۔ اس کے بعد سے ہمارا یہ دستور ہوگیا کہ ہم چند احباب ہر سنیچر کی سہ پہر کو مولانا کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آٹھ بجے رات تک برابر ان کے قدموں کے سامنے بیٹھ کر اپنا دامنِ تہی پھیلاتے اور جب اٹھتے تو اس دامن تہی کو مختلف علمی جواہر ریزوں سے لبریز پاتے۔ اس اثنا میں مولانا کے دل چسپ فقرے بھی ہوتے رہتے جن کا زیادہ تر نشانہ میرے مرحوم دوست پروفیسر طاہر رضوی ہوتے۔ مولانا نے ان کی بھولی اور معصوم شخصیت سے دل چسپی لینی شروع کردی اور اس کا سبب یہ ہے کہ طاہر مرحوم نے ان ہی دنوں میں پارسی مذہب کے متعلق ایک کتاب لکھی تھی جس میں یہ ثابت کیا تھا کہ پارسی، یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح اہلِ کتاب ہیں۔

مولانا نے وہ کتاب ملاحظہ کی اور پروفیسر طاہر رضوی کی محنتوں کی بھرپور داد دی ۔ ایک دن پوچھنے لگے کہ بھئی طاہر اس کتاب کے لکھنے کا خیال آپ کے ذہن میں کس راستے سے آیا۔ میں مولانا کی خدمت میں ذرا گستاخ ہوچلا تھا۔ طاہر رضوی کو سنانے کے خیال سے بولا کہ مولانا ممکن ہے محبت کے راستے آیا ہو۔ مولانا مسکرا کر طاہر صاحب سے مخاطب ہوئے۔ دیکھو بھئی تمہارے یہ احباب بڑے ناقدر شناس ہیں۔ تمہارے علمی شغف کو ایک جذباتی انہماک کا نتیجہ بتلاتے ہیں۔ یہ صریحی ظلم ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ جب جب مجلس کچھ سونی سی ہونے لگتی تو مولانا طاہر صاحب کی طرف مسکرا کر دیکھتے اور پوچھتے کہ ہاں بھئی آپ کے احباب کا وہ شبہ اب تک قائم ہے یا رفع دفع ہوا۔ طاہر صاحب کا جھینپنا، مولانا کا مسکرانا اور جملہ احباب کا کھلکھلانا ابھی تک یاد آتا ہے۔

(مولانا آزاد: کچھ نجی یادیں از قلم جمیل مظہری)

Comments

- Advertisement -