نشاستہ دار غذا یا کاربوہائیڈریٹس ہمارے جسم کی ایک اہم ضرورت ہیں جو مختلف اجناس اور ہماری خوراک کے ذریعے جسم کا جزو بنتے ہے۔ عام نشاستہ دار غذا سے مراد دراصل گلوکوز یا شکر جیسے قدرتی اجزا اور وہ کاربوہائیڈریٹس ہیں جو ہمارے جسم کو توانائی فراہم کرتے ہیں اور صحّت کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔
طبی محققین اور ماہرینِ غذائیت کے مطابق جہاں نشاستہ دار غذائیں ہماری صحّت کے لیے نہایت ضروری ہیں، وہیں ہمیں نشاستے دار کھانوں اور بعض غذائی مصنوعات کو زیادہ بھوننے اور سینکنے کے بجائے اس حد تک پکانا یا تلنا چاہیے کہ ان کی رنگت ہلکی پیلی یا سنہری ہوجائے۔
اس کی کیا وجہ ہے؟
طبی محققین کا کہنا ہے کہ نشاستہ دار کھانوں کو زیادہ دیر تک بھونا یا تلا جائے، یا ایسی غذائی مصنوعات کو جس میں بریڈ، آلو کے قتلے شامل ہیں، زیادہ تلا جائے تو اس میں ایکریلامائڈ (Acrylamide) نامی کیمیائی مادّہ پیدا ہوتا ہے اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کینسر اور ایکریلا مائڈ میں ایسا تعلق ہے جو انسانوں کے علاوہ دیگر جانداروں کو مرض کا شکار کرسکتا ہے۔
اگرچہ اس کیمیائی مادّے کے سبب انسانوں میں کسی قسم کی بیماری کا مشاہدہ نہیں کیا گیا، لیکن نشاستے دار غذاؤں کو زیادہ درجہ حرارت پر پکانے میں احتیاط بہتر ہے۔ اسی طرح آلو اور گاجر جیسی سبزیوں کو فریج میں نہیں رکھنا چاہیے، کیوں کہ بہت کم درجۂ حرارت پر ان سبزیوں میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور جب انھیں پکایا جاتا ہے تو اس دوران ان میں ایکریلا مائڈ کا زیادہ مقدار میں پیدا ہونے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔
ایکریلامائڈ کیا ہے؟
طبی سائنس بتاتی ہے کہ یہ مختلف اقسام کے پکوان میں پیدا ہونے والا مادہ ہے اور تجربات کے دوران اس کی سب سے زیادہ مقدار نشاستہ دار غذاؤں میں پائی گئی۔ ماہرین کے مطابق یہ بریڈ، بسکٹ، کیک، کافی وغیرہ میں پایا جاتا ہے جنھیں زیادہ پکایا گیا ہو۔
طبی محققین کے مطابق بریڈ کو ٹوسٹ کرنے کے لیے جتنا زیادہ سینکا جائے گا اس میں اتنا ہی زیادہ ایکریلامائڈ پیدا ہوگا۔
ماہرین کے مطابق یہ مادہ سینکنے، تلنے یا بھوننے کے دوران نشاستہ دار کھانے میں موجود شکر، امینو ایسڈ اور پانی کے تعامل سے پیدا ہوتا ہے۔