منگل, دسمبر 10, 2024
اشتہار

درپن: پاکستانی فلموں کے ایک مقبول ہیرو کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

1961ء میں اداکار درپن نے اپنی فلم ’’گلفام‘‘ بنائی تھی جس میں ٹائٹل رول بھی انہی کا تھا۔ فلم میں ہیروئن مسرّت نذیر تھیں۔ یہ درپن کی ایک کام یاب فلم ثابت ہوئی جس میں‌ عرب معاشرت اور ثقافت کو اجاگر کیا گیا تھا۔ لیکن درپن اس سے پہلے ہی فلم بینوں میں خوبرو ہیرو کے طور پر مشہور تھے۔ اس دور میں درپن کی فلمیں پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی شوق سے دیکھی جاتی تھیں۔

اداکار درپن نے بعد میں‌ کیریکٹر رول بھی نبھائے اور معاون اداکار کے طور پر بھی کام کیا۔ وہ وجیہ اور جاذبِ نظر شخصیت کے مالک ایسے اداکار تھے جن کے بھائی سنتوش کمار کو بھی بطور فلمی ہیرو شہرت اور مقام حاصل ہوا۔ آج پاکستانی فلموں کے ہیرو درپن کی برسی ہے۔ وہ 1980ء میں‌ انتقال کرگئے تھے۔ متحدہ صوبہ جات آگرہ اور اودھ سے تعلق رکھنے والے درپن 1928ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام سیّد عشرت عباس تھا۔ سنتوش کمار کے علاوہ ان کے ایک بھائی ایس سلیمان بھی فلم سازی سے وابستہ تھے۔ فلم کی دنیا میں عشرت عباس نے قدم رکھا تو درپن کے نام سے شہرت پائی۔ ان کا فلمی کریئر تقسیم ہند کے بعد 1950ء میں فلم امانت سے شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان فلمی تعلق خاصا مضبوط تھا اور ان کی بنائی ہوئی فلموں‌ کی نمائش بھی دونوں ممالک میں عام تھی۔ درپن نے پاکستان میں چند فلموں میں کام کرنے کے بعد ممبئی کا رخ کیا اور وہاں فلم عدلِ جہانگیری اور باراتی میں کام کیا، ممبئی میں قیام کے دوران بھارتی اداکارہ نگار سلطانہ کے ساتھ ان کا افیئر بھی مشہور ہوا۔ درپن پاکستان لوٹ آئے اور یہاں کئی کام یاب فلمیں کیں جن میں ساتھی، رات کے راہی، سہیلی، گلفام، قیدی، آنچل، باجی، شکوہ، اک تیرا سہارا اور نائلہ وغیرہ شامل ہیں۔

درپن کی بطور ہیرو آخری اور کام یاب فلم پائل کی جھنکار تھی جو 1966ء میں بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ مجموعی طور پر درپن نے 67 فلموں میں کام کیا جن میں 57 فلمیں اردو، 8 پنجابی اور دو فلمیں پشتو زبان میں بنائی گئی تھیں۔ درپن نے پاکستانی فلم انڈسٹری کی مقبول ہیروئن نیّر سلطانہ سے شادی کی تھی اور یہ کام یاب شادی ثابت ہوئی۔

- Advertisement -

درپن نے بہترین اداکاری پر دو مرتبہ نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ فلم ساز کے طور پر گلفام کے علاوہ درپن نے بالم، تانگے والا، ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سے بھی فلمیں بنائی تھیں۔ وہ لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں