تازہ ترین

علی امین گنڈاپور وفاق سے روابط ختم کر دیں، اسد قیصر

اسلام آباد: رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد قیصر نے...

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

کراچی: 2015 کا سال کراچی کے لیے ایک ’انوکھا‘ سال تھا۔ اس سال جب رمضان شروع ہوا تو اس کے ساتھ ہی قیامت خیز گرمی شروع ہوگئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے 1 ہزار سے زائد جانیں لے لیں۔ اس قدر شدید گرمی کراچی کے شہریوں کے لیے ایک بالکل نئی بات تھی چنانچہ اسے سمجھنے اور اس سے بچاؤ کے اقدامات اٹھانے میں وقت لگا اور اس دوران ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔

شہر میں ہنگامی بنیادوں پر سرکاری و نجی اسپتالوں میں ہیٹ ریلیف سینٹرز قائم کردیے گئے اور 3 دن بعد جب ہیٹ ویو ختم ہوئی تو یہ اپنے ساتھ 1700 جانیں لے چکی تھیں۔

گرمی کی اس شدید لہر نے تمام متعلقہ سرکاری اداروں اور ماہرین کو سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کردیا۔ ماہرین نے خبردار کردیا کہ یہ ہیٹ ویو اب ہر سال کراچی کے موسم کا حصہ ہوں گی اور یہ لہر ایک بار نہیں بلکہ بار بار آئیں گی۔ اس وارننگ نے سب کو اور پریشان کردیا۔

بہرحال 2016 کے آغاز سے ہی ہیٹ ویو کے خلاف مؤثر اقدامات شروع کردیے گئے اور بڑے پیمانے پر آگہی مہمات چلائی گئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رواں برس اب تک آنے والی ہیٹ ویو میں صرف 3 افراد ہلاک ہوئے۔

ہیٹ ویو کیا ہے؟

کراچی جیسے شہر میں رہتے ہوئے، جو ایک صنعتی حب بن چکا ہے اور درختوں کی کٹائی روز بروز جاری ہے، اس بات کو سمجھنا از حد ضروری ہے کہ ہیٹ ویو کیا ہے؟

ہیٹ ویو موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج کے باعث پیدا ہونے والا ایک عمل ہے۔ کسی مقام کے ایک اوسط درجہ حرارت میں 5 سے 6 ڈگری اضافہ ہوجائے، ساتھ ہی ہوا بند ہوجائے، اور یہ عمل مستقل 3 سے 5 دن جاری رہے تو اسے ہیٹ ویو کہا جاتا ہے۔ اس کا پیمانہ ہر مقام کے لیے مختلف ہے۔

مثال کے طور پر نیدرلینڈز میں واقع ڈی بلٹ علاقہ کا اوسط درجہ حرارت 25 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اگر اس کا درجہ حرارت بڑھ کر 30 ہوجائے تو اسے ہیٹ ویو کہا جاسکتا ہے۔

کراچی کا جون (گرمی) کے مہینے میں اوسط درجہ حرارت 31 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ لیکن گذشتہ برس یہ 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیا جس نے شہر کو تپتے دوزخ میں تبدیل کردیا۔

عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ؟

اکیسویں صدی کا آغاز ہوتے ہی صنعتی ترقی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی دیگر مسائل کا بھی آغاز ہوگیا جس میں سے ایک آبادی کا دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے شہروں کی طرف ہجرت کرنا تھا۔ اس سے شہروں کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا، رہائش و دیگر سہولیات کے لیے تعمیرات شروع ہوئیں جس کے لیے درختوں، جنگلوں کو کاٹا گیا اور پارکس کی جگہ ختم کی گئی، شہر کے انفراسٹرکچر پر منفی اثر پڑا اور شور، فضا کی آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔

ان صنعتوں سے جن گیسوں کا اخراج شروع ہوا اس نے شہر کی فضا کو آلودہ کیا، انسانوں کی صحت پر منفی اثر ڈالا، جنگلی حیات کو نقصان پہنچایا، اور مجموعی طور پر شہروں کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیا۔

ان گیسوں نے اوزون کی تہہ کو بھی نقصان پہنچایا۔ اوزون آسمان کے نیچے وہ تہہ ہے جو سورج کی روشنی کو براہ راست زمین پر آنے سے روکتی ہے۔ اس تہہ کی خرابی سے بھی سورج کی روشنی زمین پر زیادہ آنے لگی اور یوں گرمی میں اضافہ ہوگیا۔

کراچی اس حوالے سے دہرے خطرات کا شکار ہے۔ ایک جانب میٹرو پولیٹن شہر ہونے کے باعث عمارتوں کا جنگل ویسے ہی اس شہر کی سانس بند کیے ہوئے ہے، دوسری جانب چونکہ یہ ساحلی شہر ہے، اور گلوبل وارمنگ کے باعث گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور سطح سمندر میں اضافہ ہورہا ہے، تو کراچی کو ایک بڑے سونامی کا بھی خطرہ ہے۔ سطح سمندر میں اضافے کے باعث کراچی کے کئی ساحلی گاؤں اپنی زمین کھو چکے ہیں جبکہ کچھ دیہاتوں کا اگلے چند سالوں میں صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا امکان ہے۔

گذشتہ برس موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

کراچی ہیٹ ویو سے کیسے نمٹا گیا؟

تاہم یہ 2 ڈگری سینٹی گریڈ بھی شہروں کی نفسیات تبدیل کردے گا اور انہیں اپنے ترقیاتی منصوبے اس اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے بنانے ہوں گے۔

یہاں ہم جائزہ لیں گے کہ 2015 میں کراچی میں آنے والی ہیٹ ویو پر کس طرح قابو پایا گیا۔

سال 2015 میں آنے والی ہیٹ ویو کے بعد ماہرین نے خبردار کردیا کہ یہ لہر اگلے سال، اور ہر سال آئے گی اور کراچی کے شہریوں کو اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ چنانچہ 2016 کے آغاز سے ہی تمام متعلقہ ادارے الرٹ تھے اور شروع سال سے ہی اس پر کام ہو رہا تھا۔

گرمیوں کے آغاز سے ہی اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ بڑے پیمانے پر آگاہی مہم شروع کردی گئی جس میں لوگوں کو ہیٹ ویو سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر، اس کا شکار ہونے کی صورت میں اس کی علامات اور اس کے بعد جان بچانے کے اقدامات اٹھانے کے بارے میں بتایا گیا۔

ان آگاہی پیغامات میں لوگوں کو دن کے اوقات میں گھر سے باہر نکلنے، دھوپ کے چشمے اور ہیٹ استعمال کرنے، پانی زیادہ پینے، زیادہ مشقت کا کام نہ کرنے کا کہا گیا جبکہ ہیٹ ویو کا شکار ہونے کی صورت میں انہیں قریبی ہیٹ ریلیف سینٹرز کے بارے میں بتایا گیا۔

محکمہ موسمیات کو الرٹ رکھا گیا جس کے باعث ہیٹ ویو شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل ہی عوام کو آگاہ کردیا گیا۔

حکومت کی جانب سے ڈیزاسٹر ریلیف مینجمنٹ کے تحت سرکاری اسپتالوں میں خصوصی ہیٹ ریلیف سینٹرز قائم کیے گئے۔ گرمیوں کی تعطیلات کی وجہ سے اسکول بند ہونے کے باعث اسکول اور کالجوں میں بھی یہ سینٹرز قائم کیے گئے۔

مختلف تنظیموں کی جنب سے شہر بھر میں واٹر اسپاٹس قائم کردیے گئے جہاں سے ہیٹ ویو کے دنوں میں شہروں کو مفت پانی کی بوتلیں فراہم کی گئیں۔

مختلف سرکاری و غیر سرکاری ایمبولینس سروسز بھی الرٹ رہیں جس کے تحت تمام علاقوں کے مرکزی مقامات پر تیار ایمبولینس کھڑی رہیں تاکہ کسی ہنگامی صورتحال میں فوری مدد کو پہنچا جاسکے۔

ہیٹ ویو سے ہونے والی اموات کی وجہ چونکہ درختوں اور سایہ دار جگہوں کی عدم فراہمی تھی لہٰذا کمشنر کراچی کی جانب سے کسی بھی مقام پر درخت کٹنے کی صورت میں ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیا گیا اور اس ضمن میں ایک ہیلپ لائن 1299 قائم کی گئی جس پر درخت کٹنے کی شکایات درج کروائی جاسکتی ہیں۔

چونکہ عوام خود بھی ہیٹ ویو کی تباہ کاری سے خوف زدہ تھی چنانچہ رواں برس تمام احتیاطی تدابیر اٹھائی گئیں اور یوں 2015 کی 1700 اموات کے مقابلے اس سال ہیٹ ویو سے صرف 3 اموات ہوئیں۔

یہاں کراچی کے جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کا ذکر ضروری ہے جن کے مطابق ’کراچی میں آنے والی ہیٹ ویو کلائمٹ چینج کے باعث اب ایک معمول کی بات ہوگی۔ اسے ہوا بنانے کی ضرورت نہیں۔ خوف مت پھیلائیں، آگہی پھیلائیں کہ لوگوں کو کیسے بچنا ہے‘۔

مطابقت کیسے کی جائے؟

ماحولیاتی شعبہ میں دو اصلاحات استعمال کی جاتی ہیں، مٹی گیشن یعنی کمی کرنا اور ایڈاپٹیشن یعنی مطابقت پیدا کرنا۔

کلائمٹ چینج ایک نیم قدرتی عمل ہے چنانچہ اسے روکنا یا اس میں کمی کرنا ممکن نہیں۔ لیکن اس سے مطابقت پیدا کرنی ازحد ضروی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس کی ہیٹ ویو پر اٹھائے جانے والے تمام اقدامات عارضی ہیں اور کسی خاص موقع پر انہیں اپنا کر زندگیاں تو بچائی جا سکتی ہیں تاہم مستقل بنیادوں پر گلوبل وارمنگ سے مطابقت کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے شہر کو ایک طویل المعیاد اور پائیدار منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس میں ماحولیاتی خطرات کو سرفہرست رکھا جائے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں شعبہ ماحولیات ۔ 1947 سے اب تک کا تاریخی جائزہ

موسم کی شدت سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے ماہرین کچھ تجاویز اپنانے پر زور دیتے ہیں۔

شہر بھر میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کی ضرورت ہے۔ کراچی میں شجر کاری تو کی جارہی ہے مگر بدقسمتی سے لگائے جانے والے درخت کونو کارپس کے ہیں۔ کونو کارپس ہماری مقامی آب و ہوا کے لیے بالکل بھی مناسب نہیں۔ یہ کراچی میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں۔ کونو کارپس دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔

بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی جگہ نیم کے درخت لگائے جائیں جو شہر کے درجہ حرارت کو معتدل رکھیں گے۔

پرانی نہروں اور ندیوں کا احیا کیا جائے۔ یہاں کراچی کی ایک مشہور نہر ’نہر خیام‘ کا تذکرہ ضروری ہے جو حکومت اور عوام کی غفلت کے باعث گندے نالے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ یہی حال لیاری ندی کا ہے جبکہ کراچی کی ایک بڑی ملیر ندی میں فیکٹریوں کا زہریلا پانی خارج کیا جاتا ہے۔

ہیٹ ریلیف سینٹرز کو سال بھر فعال رکھا جائے اور بڑے پیمانے پر ڈاکٹرز کو اس حوالے سے تربیت دی جائے۔

محکمہ موسمیات کو تمام جدید ٹیکنالوجیز سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ بر وقت موسم کی شدت سے خبرادر کر سکیں۔

حکومتی اداروں جیسے کے الیکٹرک اور مقامی واٹر بورڈ کے سیاسی استعمال سے گریز کیا جائے اور ان کی استعداد بڑھائی جائے تاکہ گرمی کے دنوں میں یہ عوام کو بجلی اور پانی فراہم کر سکیں۔

سایہ دار جگہیں قائم کی جائیں۔ اس کی ایک مثال بھارت کے شہر ناگپور میں دیکھی گئی جہاں سگنلز پر سبز ترپال تان دیے گئے۔ یوں یہ سنگلز سایہ فراہم کرنے والے مقامت بن گئے۔ اس تدبیر سے ٹریفک قوانین کی عملداری میں بھی بہتری دیکھنے میں آئی۔

ماہرین گرمی سے بچاؤ کی ایک تجویز گرین روف ٹاپ بھی دیتے ہیں۔ یہ طریقہ اب دنیا بھر میں مقبول ہورہا ہے۔ اس کے ذریعہ گھروں کی چھتوں پر سبز گھاس، درخت اور پھول پودے لگائے جاسکتے ہیں جس سے گھر قدرتی طور پر ٹھنڈے رہیں گے اور پنکھوں اور اے سی کا استعمال بھی کم ہوگا۔

ایک اور طریقہ ورٹیکل یا عمودی گارڈننگ کا بھی ہے۔ اس کے ذریعہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دیواروں میں بیلیں اور سبزہ اگایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی گھروں اور دفتروں کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج اور گلوبل وارمنگ اگلے چند سال میں دنیا کے لیے امن و امان اور دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہی نہیں فطرت میں تبدیلی دنیا میں غربت، بے روزگاری، شدت پسندی اور جنگوں کو فروغ دے سکتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ اس سے مطابقت پیدا کی جائے اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔

Comments

- Advertisement -