تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

غیر قانونی قید خانوں میں افغان خواتین کی دردناک حالت زار

افغانستان جیسے ملک میں جہاں شاید خواتین سانس بھی اپنے مردوں سے پوچھ کر لیتی ہوں گی، کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ وہاں خواتین جرائم میں بھی ملوث ہوسکتی ہیں؟ اور آپ کے خیال میں ایسی خواتین کو کیا سزا دی جاتی ہے؟

افغانستان میں کسی بھی قسم کے جرم میں ملوث خاتون کو بطور سزا کسی قبائلی سردار کے گھر بھیج دیا جاتا ہے، جہاں وہ اس کے گھر والوں کی بلا معاوضہ خدمت کرتی ہے۔ یہی نہیں، گھر کے مردوں کی جانب سے کیا جانے والا جنسی و جسمانی تشدد بھی ان کی ’سزا‘ کا حصہ ہوتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں مجرم قرار دی جانے والی 95 فیصد لڑکیاں اور 50 فیصد خواتین اخلاقی جرائم میں ملوث ہوتی ہیں۔ خواتین کے بنیادی حقوق سلب کرنے والے ان ’اخلاقی جرائم‘ کی کیا تعریف پیش کرتے ہیں؟ آئیے آپ بھی جانیں۔

وہ خواتین جو گھر سے بھاگ جائیں، جو زنا میں ملوث پائی جائیں، یا جو شادی شدہ ہوتے ہوئے کسی دوسرے مرد سے تعلقات رکھیں، اخلاقی مجرم قرار پاتی ہیں۔

مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

ان ہی اخلاقی جرائم میں ملوث ایک عورت فوزیہ بھی ہے جس نے اپنے نگرانوں کو رسوائی سے بچانے کے لیے اپنا نام غلط بتایا۔

افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے پکتیکا کی رہائشی فوزیہ کو گھر سے بھاگنے اور زنا میں ملوث پائے جانے کے جرم میں سزا یافتہ قرار دیا گیا ہے۔ اسے مقامی عدالت نے جیل بھیجنے کا حکم دیا۔

مگر بہت جلد اسے علم ہوا کہ اسے حکومت کی جانب سے طے کردہ 18 ماہ کی سزا نہیں ملے گی، نہ ہی اسے سرکاری جیل میں بھیجا جائے گا۔ اس کے برعکس اسے ایک قبائلی سردار کے گھر بھیجا جائے گا جہاں اس کی حیثیت ایک غلام جیسی ہوگی۔

قید کا آغاز ہونے کے بعد فوزیہ کی زندگی کا ایک درد ناک سفر شروع ہوا۔ فوزیہ کے لیے منتخب کیے گئے قبائلی سردار نے اسے اپنے گھر سے متصل ایک جھونپڑی میں قید کردیا۔ روز صبح اس قید خانے کا دروازہ کھولا جاتا ہے جس کے بعد فوزیہ سردار کے گھر کے کام کرتی ہے، صفائی کرتی ہے، اور کپڑے دھوتی ہے۔

سورج غروب ہونے کے بعد اسے واپس اس کے قید خانے میں بھیج دیا جاتا ہے۔

دبیز پردے سے اپنے چہرے کو چھپائے فوزیہ شاید خوف کے مارے یہ تو نہ بتا سکی کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے یا نہیں، تاہم وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کا راز کھول گئی۔

مزید پڑھیں: داعش کے ظلم کا شکار عراقی خاتون اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر

وہ بتاتی ہے، ’مجھے جانوروں کی طرح رکھا گیا ہے اور مجھ سے زرخرید غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے‘۔

وہ کہتی ہے، ’میری دعا ہے کہ جو کچھ میں نے قید کے دوران سہا ہے اور سہہ رہی ہوں، وہ کبھی کوئی اور عورت نہ سہے‘۔

اسے سب سے زیادہ دکھ اپنے خاندان سے جدائی کا ہے، ’یہ کوئی عام قید خانہ نہیں جہاں کبھی کبھار آپ کی والدہ یا بہن آپ سے ملنے آسکیں، یا وہ آپ کے لیے کچھ لے کر آئیں۔ مجھے یہاں نہ صرف اپنے گھر والوں بلکہ ساری دنیا سے الگ تھلگ کردیا گیا ہے اور یہ میرے لیے بہت وحشت ناک بات ہے‘۔

فوزیہ کا کیس صوبائی عدالت میں زیر سماعت ہے، اور اس سے قبل بھی انہیں جیل بھیجے جانے کا فیصلہ سنایا جا چکا ہے، اس کے باوجود انہیں قبائلی سردار بھیجنے کی وجہ کیا ہے؟


سزا کے لیے ’غیر معمولی‘ قید خانے کیوں؟

افغانستان کے طول و عرض پر واقع جیلیں گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ہیں جو عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے پہلے کی تنقید کی زد میں ہیں۔

افغانستان کے ڈائریکٹر برائے جیل خانہ جات عالم کوہستانی کے مطابق حکومت کی جانب سے قائم باقاعدہ جیلوں میں صرف 850 کے قریب خواتین موجود ہیں جو اخلاقی جرائم، منشیات کے استعمال یا قتل میں ملوث ہیں۔

ان میں وہ خواتین شامل نہیں جو غیر قانونی طریقہ سے قیدی بنائی گئی ہیں۔ ان میں ہزاروں خواتین شامل ہیں جو ملک بھر میں مختلف مقامات پر قید ہیں۔

afghan-2

دراصل افغان حکومت کی جانب سے طے کردہ قوانین اور سزائیں عموماً خواتین پر لاگو نہیں کی جاتیں، اور مقامی کونسلوں یا گاؤں کے سربراہ ہی مجرم خواتین کی سزا کا تعین کرتے ہیں۔ البتہ حکومت اپنے قوانین اور عدالتی نظام کو قبائلی علاقوں میں بھی نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق سے متعلق تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افغانستان کا رسمی قانونی نظام دیہی اور قبائلی علاقوں میں غیر مؤثر ہے اور یہاں یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

یہاں ہونے والے تنازعوں کو نمٹانے کے لیے علاقہ کے معززین بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے ایسی سزائیں ایجاد کرلی ہیں جو افغانستان کے قوانین سے بالکل علیحدہ اور بعض اوقات متصادم ہیں۔

پکتیکا میں کام کرنے والی ایک سماجی کارکن زلمے خروٹ کا کہنا ہے کہ قید کی جانے والی ان خواتین کو بدترین جنسی و جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان سے غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ دراصل ان کی حیثیت گھر کے سربراہ کی جائیداد جیسی ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں صرف خواتین کے لیے مخصوص جیلیں یا قید خانے کم ہیں۔ افغان صوبہ پکتیکا میں جس کی سرحدیں پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بھی ملتی ہیں، خواتین کو رکھنے کے لیے کوئی جیل یا مناسب قید خانہ موجود نہیں۔

مزید پڑھیں: مہاجر شامی خواتین کا بدترین استحصال جاری

افغانستان کے صوبائی محکمہ برائے امور خواتین کی سربراہ بی بی حوا خوشیوال نے اس بارے میں بتایا کہ وہ کئی خواتین مجرموں کو قبائلی سرداروں یا خواتین پولیس اہلکاروں کے گھر بھیجتے ہیں۔ ’ہم مانتے ہیں کہ یہ قانونی نہیں، لیکن جگہ کی کمی کی وجہ سے ہم مجبور ہیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں قبائلی سرداروں کی جانب سے خطوط بھیجے جاتے ہیں کہ وہ ان مجرم خواتین کو ان کے گھر بھیجیں۔ وہ یقین دہانی کرواتے ہیں کہ ان کے گھر میں خواتین سے کوئی ظالمانہ سلوک نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اکثر سردار اپنی بات سے پھر جاتے ہیں اور ان کے گھر جانے والی خواتین کا بری طرح استحصال ہوتا ہے۔

بی بی حوا کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس صرف 16 خواتین مجرموں کے کیس مقامی و صوبائی عدالتوں میں بھیجے گئے۔ ان کے علاوہ ایسے درجنوں مقدمات، جو خواتین کے خلاف قائم کیے گئے، قبائلی سرداروں نے بالا ہی بالا خود ہی طے کر لیے۔ ان مقدمات میں خواتین مرکزی ملزم تھیں یا بطور سہولت کار ملوث تھیں۔

اس بارے میں افغان ڈائریکٹر برائے جیل خانہ جات عالم کوہستانی کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی پوری کوشش کرتی ہے کہ ایسی خواتین جو کسی قسم کے مقدمات میں قبائلی سرداروں کے گھر قید ہیں، انہیں قانونی معاونت فراہم کی جائے۔ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ خواتین کے مقدمات کی وقت پر سماعت کی جائے (اگر ان کے سرپرست اس کی اجازت دیں)، اور سزا ملنے کی صورت میں ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہونے دی جائے۔


کیا تمام خواتین اس صورتحال کا شکار ہیں؟

افغانستان میں غیر قانونی طور پر قید کی گئی تمام خواتین کو اس صورتحال کا سامنا نہیں۔ کچھ خواتین کو قانونی معاونت بھی میسر آجاتی ہے، تاہم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین کی تعداد بہت کم ہیں۔

خواتین قیدیوں کی اکثریت ایسی ہے جو دوران قید بری طرح استحصال کا شکار ہوتی ہیں اور بعض دفعہ ان کی قید کی مدت مقرر کردہ مدت سے بھی تجاوز کردی جاتی ہے۔


قبائلی سرداروں کا کیا کہنا ہے؟

اس بارے میں جب ایک قبائلی سردار خلیل زردان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اسے اپنے قبیلے کے لیے ایک قابل فخر عمل قرار دیا۔ اپنی رائفل سے کھیلتے ہوئے اس نے کہا، ’میرا نہیں خیال کہ خواتین قیدیوں کو اپنے گھر میں رکھنے میں کوئی قباحت ہے۔ میرے گھر میں کبھی کسی خاتون قیدی کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا گیا‘۔

سردار زردان کے گھر میں خواتین کے لیے باقاعدہ جیل قائم ہے اور اس کی دوسری بیوی اس کے گھر میں چلائی جانے والی جیل کی نگران ہے۔ سردار کا کہنا تھا، ’جب کسی عورت کو سزا یافتہ قرار دیا جاتا ہے تو پولیس چیف مجھے فون کر کے کہتا ہے کہ اگر میرے گھر میں جگہ ہے تو میں اس عورت کو اپنے گھر میں رکھ لوں‘۔ ’یہ کام میں اپنے قبیلے کی عزت کے لیے کرتا ہوں، میرے قبیلے کو جب اور جتنی ضرورت ہوگی، میں اتنی عورتیں اپنے گھر میں رکھ سکتا ہوں‘۔

افغانستان میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں اور اداروں کا مشترکہ مشن یہ ہے کہ یہاں سب سے پہلے خواتین کو ان کے بنیادی حقوق واپس دلوائے جائیں۔ دیگر سہولیات کی بات بعد میں آتی ہے۔

افغانستان کی فٹبال کی پہلی خواتین ٹیم کی کپتان خالدہ پوپل زئی اس بارے میں کہتی ہیں، ’افغانستان سے طالبان کا کنٹرول ختم ہوگیا ہے لیکن ان کی سوچ لوگوں میں سرائیت کر چکی ہے۔ یہ سوچ خواتین کو ان کے بنیادی حقوق بھی دینے سے روک دیتی ہے اور لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خواتین کو جانور سے بھی بدتر کوئی مخلوق سمجھیں‘۔


خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -