کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں واقع عائشہ باوانی کالج کو عدالتی حکم کے باجود کھولا نہیں گیا۔ پیر کی صبح طلبا کالج پہنچے تو کالج کو بند پا کر سراپا احتجاج بن گئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کالج کو فوری طور پر کھولنے کا حکم دے دیا۔
کراچی کی مرکزی شاہراہ فیصل پر واقع عائشہ باوانی کالج میں عائشہ باوانی ٹرسٹ اور محکمہ تعلیم کے درمیان کالج کے کرائے کا معاملہ ماتحت عدالت تک جا پہنچا تھا جس پر عدالت نے کالج کو سیل کرنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم اگلے ہی روز 2 ہزار سے زائد طلبا کے احتجاج اور ان کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ نے فوری طور پر فیصلے کو معطل کرتے ہوئے کالج کھولنے اور پیر سے تدریسی عمل شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم آج صبح پیر کے روز جب طلبا کالج پہنچے تو عمارت کو تاحال بند پایا جس کے بعد طلبا نے احتجاج شروع کردیا۔
طلبا کے احتجاج کے باعث شاہراہ فیصل پر ٹریفک بھی جام ہونا شروع ہوا تاہم پولیس کی مداخلت کے بعد احتجاجی طلبا کو کالج کے مرکزی گیٹ تک محدود کردیا گیا۔
تھوڑی دیر بعد ہی عائشہ باوانی کالج کے باہر صورتحال کشیدہ ہوگئی جب سیکریٹری تعلیم صورتحال کا جائزہ لینے وہاں پہنچے۔
سیکریٹری تعلیم اور طالبعلموں کو کالج میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی، سیکریٹری تعلیم اور کالج انتظامیہ کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی جس کے بعد سیکریٹری تعلیم مایوس ہوکر کالج سے واپس چلے گئے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کا کالج فوری کھولنے کا حکم
بعد ازاں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے عائشہ باوانی کالج کو فوری طور پر کھولنے کا حکم دے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی صورت بچوں کی تعلیم کا نقصان نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کالج کھولنے اور فوری طور پر تدریسی عمل شروع کرکے رپورٹ دینے کا حکم بھی جاری کیا۔
سندھ حکومت کی ٹرسٹ تحلیل کرنے کی درخواست
اس سے قبل حکومت سندھ نے عائشہ باوانی ٹرسٹ کو تحلیل کروانے کے لیے ہائیکورٹ میں درخواست جمع کروادی۔
حکومت سندھ نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ 1958 میں 3 ایکڑ سے زائد اراضی ٹرسٹ کو لیز پر تعلیمی مقاصد کے لیے الاٹ کی گئی تھی لیکن انتظامیہ ادارے کو کمرشل بنیاد پر استعمال کر رہی ہے۔
بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں عائشہ باوانی اسکول کو قومی تحویل میں لے لیا گیا جس پر زمین کی لیز مقررہ مدت سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔
درخواست کے مطابق سنہ 1984 میں عائشہ باوانی ٹرسٹ نے ادارے پر غیر قانونی قبضہ کیا۔ مشرف دور میں اسکول اور کالج کا انتظام محکمہ تعلیم کے سپرد کردیا گیا۔
حکومت سندھ کی جانب سے دائر درخواست کے مطابق معاہدے کے تحت ادارے کو سنہ 2008 میں پھر سندھ حکومت کی تحویل میں دیا گیا۔ موجودہ ٹرسٹ میں باوانی فیملی کا کوئی رکن موجود نہیں لہٰذا ٹرسٹ تحلیل کی جائے۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا کہ ٹرسٹ کا 50 سالہ آڈٹ کروانے کے بعد نمایاں شخصیات پر مشتمل نیا ٹرسٹ بنایا جائے۔
سندھ ہائیکورٹ نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
ٹرسٹ کا مؤقف
دوسری جانب عائشہ باوانی ٹرسٹ کا مؤوقف ہے کہ جب کالج ہمارے حوالے کردیا گیا تو اب یہ سرکاری کالج نہیں رہا۔ ہمیں اس سرکاری عملے پر اعتراض ہے جو کالج میں موجود ہے۔
ٹرسٹ کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اپنا عملہ موجود ہے اور ہم طالب علموں کو بہترین انداز میں تعلیم دے سکتے ہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔