تازہ ترین

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

آخری اسٹیشن: مختلف مشکلات سے نبرد آزما خواتین کی کہانیاں

ایک عام سی، بظاہر کمزور دکھنے والی عورت اس وقت بہت خاص بن جاتی ہے جب وہ کسی مقصد کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ چاہے وہ مقصد کسی اپنے کی حفاظت کرنا ہو یا پھر اپنی زندگی بدلنا، ایسے موقع پر اس کے عزم و حوصلہ کو شکست دینا ناممکن ہوتا ہے۔

اے آر وائی ڈیجیٹل پر پیش کیا جانے والا ’آخری اسٹیشن‘ بھی ایسی ہی 7 عام سی خواتین کی بہت خاص کہانیوں پر مبنی ڈرامہ سیریل ہے جو کل 13 فروری سے نشر کیا جائے گا۔

کشف فاؤنڈیشن کی جانب سے پیش کردہ اس ڈرامے کو آمنہ مفتی نے تحریر کیا ہے جبکہ اس کی ہدایت کاری کے فرائض سرمد کھوسٹ نے انجام دیے ہیں۔

ڈرامہ ’آخری اسٹیشن‘ خواتین کے ان حساس موضوعات کو اجاگر کرتا ہے جس پر عموماً ہمارے یہاں بات نہیں کی جاتی، انہیں نظر انداز کردیا جاتا ہے یا پھر ان پر بات کرنا ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ آپ کے گھر میں موجود خواتین باہر کی مشکلات کا سامنا نہ کرنے کے باوجود ڈپریشن کا شکار ہوسکتی ہیں؟ ان کا یہ مرض اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب اس پر توجہ نہ دی جائے اور اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیا جائے۔

ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنے والی صنم سعید ایک ایسی ہی عورت کی مشکلات کو اجاگر کر رہی ہیں جو ڈپریشن سے نبرد آزما ہے۔

ڈپریشن کے سلسلے میں اپنے حقیقی تجربات کے بارے میں انہوں نے بتایا، ’نوعمری میں، میں نہیں جانتی تھی کہ ڈپریشن کیا ہوتا ہے۔ میں اپنی والدہ کو اداس دیکھتی تھی تو ان سے پوچھتی تھی کہ آخر آپ کو کیا دکھ ہے؟ آپ کے پاس شوہر، بچے، دولت، گھر سب کچھ ہے پھر آپ کیوں اداس رہتی ہیں‘۔

آہستہ آہستہ وقت کا پہیہ چلتا چلا گیا۔ جب صنم زندگی کے عملی میدان میں اتریں اور مصائب و مشکلات کا سامنا کیا تب انہیں علم ہوا کہ ڈپریشن کیا بلا ہے اور کس طرح سے زندگی سے مقصدیت کو چھین لیتا ہے۔ ’ڈپریشن کے وقت سب سے بڑی رحمت کسی سامع کا ہونا ہے جو بدقسمتی سے اکثر افراد خصوصاً خواتین کو میسر نہیں ہوتا۔ اس وقت ہمیں ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ہماری بات سنے تاکہ ہم اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکیں، لیکن اس وقت ہمیں کوئی نہیں ملتا، سب مصروف ہوتے ہیں اور ہمارا ڈپریشن بڑھتا چلا جاتا ہے‘۔

سات اقساط پر مبنی اس ڈرامہ سیریل کی ہر قسط ایک الگ کہانی ہے۔ یہ دراصل 7 مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین پر مشتمل ایک ڈرامہ ہے ہے جو ٹرین کے سفر میں اکٹھی ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کو اپنی کہانیاں سنانا شروع کرتی ہیں۔ یہاں سے ڈرامہ فلیش بیک میں چلنا شروع ہوتا ہے۔

ڈرامے میں صنم سعید کے علاوہ نمرہ بچہ، مالکہ ظفر، عمان سلیمان، فرح طفیل، انعم گوہر، عمارہ بٹ، میکال ذوالفقار اور عرفان کھوسٹ نے بھی اہم کردار ادا کیے ہیں۔

ڈرامے کا نام آخری اسٹیشن کیوں رکھا گیا؟ اس سوال کے جواب میں مصنفہ آمنہ مفتی نے بتایا کہ ہم اپنی زندگیوں میں بہت سے سمجھوتے کرتے ہیں، بہت کچھ برداشت کرتے ہیں، لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جہاں سب کچھ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ وہ فیصلہ کن لمحہ ہوتا ہے جس کے بعد آپ کو اپنی بقا کے لیے اپنی زندگی کی پٹری بدلنی پڑتی ہے۔ گویا ایک سفر کا آخری اسٹیشن آ پہنچتا ہے۔ کچھ خبر نہیں کہ اس اسٹیشن سے کوئی نیا سفر ہے یا کچھ بھی نہیں۔

چونکہ ہر عورت کی کہانی دوسری عورت سے مختلف ہے لہٰذا ہر عورت الگ الگ قسم کے مسائل کا شکار ہے۔ کوئی گھریلو تشدد کا شکار ہے اور معاشرے کی عام روایت کے مطابق ’برداشت کرو‘ کی اذیت ناک صورتحال سے دو چار ہے۔

اتنی صدیوں سے میں ڈھونڈتی ہوں اسے
اک وہ بستی جہاں مجھ سے انصاف ہو
بے بسی اور تشدد سے یکسر الگ
ایک ایسی فضا جو کہ شفاف ہو
آئینے کو میرے اب چمک چاہیئے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیئے

ایک عورت جسم فروشی پر مجبور کردی گئی ہے اور جب اس کی روح تار تار ہوچکی ہے تب اس نے بھی اپنی زندگی کی پٹری بدلنے کا تہیہ کیا اور ایک نامعلوم سفر پر چل پڑی۔

کوئی عورت ایچ آئی وی سے نبرد آزما ہے جس کا نام بھی لینا شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔

ڈرامے کا ٹائٹل سانگ معروف شاعر امجد اسلام امجد کی نظم ہے جس کا عنوان ہے، ’مجھے اپنے جینے کا حق چاہیئے‘۔ نظم کو طاہرہ کاظمی نے اپنی مسحور کن آواز میں گایا ہے۔ ڈرامے کا ایک اور خوبصورت پہلو اس میں بھارتی معروف اداکارہ شبانہ اعظمی کی شمولیت ہے جنہوں نے مختلف مناظر میں پس پردہ میں اس نظم کو تحت الفظ پڑھا ہے۔

تو میرا پیرہن میں تیری پیرہن
راہبر تو میرا چارہ گر میں تیری
نہ میں باندی کسی کی نہ جاگیر ہوں
ہم نفس ہوں تیری ہم سفر ہوں تیری
جس پہ مل کے چلیں وہ سڑک چاہیئے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیئے

خواتین کے حساس موضوعات پر گفتگو کرتا یہ ڈرامہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں یقیناً ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا جو خواتین کے حقوق اور ان کی بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں اضافہ کرے گا۔

ڈرامہ آخری اسٹیشن 13 فروری کی شب سے ہر منگل کو رات 9 بجے اے آر وائی ڈیجیٹل پر پیش کیا جائے گا۔

Comments

- Advertisement -