ترقی پسند فکر کے حامل اور جدید ادب تخلیق کرنے والے اختر انصاری دہلوی کو شاعر اور افسانہ نگار کے علاوہ اردو دنیا میں بطور نقّاد بھی مانا جاتا ہے۔ اختر انصاری دہلوی 1988ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔ ان کی تنقیدی تحریروں میں ترقی پسند فکر و شعور کا گہرا اثر ہے۔
تقسیم کے بعد بھارت میں سکونت کو ترجیح دینے والے اختر انصاری کی تحریروں کا ایک نمایاں پہلو طنز اور شدّتِ جذبات ہے جس نے انھیں ہم عصر اہل قلم میں انفرادیت بھی بخشی۔ ان کا انتقال علی گڑھ میں ہوا۔ خلیل الرحمٰن اعظمی لکھتے ہیں، ترقی پسند ادب میں اختر انصاری کو شاعر اور افسانہ نگار کی حیثیت سے ایک امتیازی مقام حاصل ہے مگر ان کی تنقیدی نگارشات بھی کم قابل توجہ نہیں ہیں۔ ان کا طویل مقالہ افادی ادب جو کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے اور اس کے متعدد ایڈیشن نکل چکے ہیں 1941ء کی تصنیف ہے، یہ وہ دور ہے جسے ترقی پسند تحریک کا جذباتی دور کہہ سکتے ہیں جب ترقی پسندی کے مسلک سے اکثر و بیشتر نوجوانوں کی وابستگی کسی واضح اور سلجھے ہوئے شعور کا نتیجہ نہ تھی۔ اختر انصاری نے اس مسلک کو فکری طور پر قبول کیا تھا۔ عالمی ادبیات کے گہرے مطالعے نے ادب اور فن کا ذوق اور آگہی بخشی تھی وہ ان کی اصل متاع تھی اس لیے اس راستے میں ان کے قدم درست سمت میں پڑ رہے تھے۔ ادب کو سماجی زندگی کا ترجمان سمجھتے اور اسے ایک واضح نصب العین سے وابستہ کرنے کے باوجود وہ ادیب کی فنی زمہ داریوں سے واقف ہیں۔
’نغمۂ روح‘ ’آبگینے‘ ’ٹیڑھی زمین‘ ’سرور جاں‘ (شاعری) ’اندھی دنیا اور دوسرے افسانے‘ ، ’نازو اور دوسرے افسانے‘، ’حالی اور نیا تنقیدی شعور‘، ’افادی ادب‘ (تنقید) وغیرہ ان کی تصانیف ہیں۔
اختر انصاری کا تعلق بدایوں سے تھا۔ وہ یکم اکتوبر 1909ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد ایوب انصاری تھا، لیکن ادب کی دنیا میں اختر انصاری کے نام سے شناخت اور مقام پایا۔ والد چوں کہ ترکِ سکونت کے بعد دہلی آگئے تھے، سو انھوں نے خود کو دہلوی کہلوانا پسند کیا۔ اختر نے اینگلو عربک اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ دہلی یونیورسٹی سے بی اے کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ٹی کرنے کے بعد یونیورسٹی اسکول میں ملازمت اختیار کرلی۔ وہ 1947ء میں اردو میں ایم اے کرنے کے بعد کچھ عرصے تک شعبۂ اردو میں لکچرر رہے۔ بعد میں ٹرینگ کالج میں ملازمت اختیار کی۔
ان کے بارے میں اکثر اہل قلم نے لکھا ہے کہ وہ منفرد شخصیت کے مالک تھے اور ایسی منفرد کہ لوگوں کے ہجوم میں بھی نظر ان پر جا کر ٹھیرتی تھی، گہرے ہرے رنگ کا کوٹ، گہرے سرخ رنگ کی ٹائی، کسی گہرے رنگ کا پتلون، منہ میں سگار اور عینک لگائے دکھائی دیتے اور کپڑوں کی صفائی کا اہتمام یوں ہوتا کہ کبھی کوئی دھبّا اور شکن نہیں ہوتی تھی۔ اختر صاحب کے یہاں ایک قسم کی قنوطیت اور توہم پرستی بھی تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ان کے اور پر ایک ایسا سایہ ہے جو ان کے ہر کام بگاڑ دیتا ہے، یہ احساس اتنا شدید تھا کہ وہ زندگی کا محض منفی پہلو دیکھتے تھے۔ اکثر تذکروں میں ان کے کمرے کو احباب نے عجائب گھر لکھا ہے جس میں انواع و اقسام کی نادر و نایاب چیزیں موجود ہوتیں جب کہ ان کے گہرے رنگ کے کپڑے، ٹائیاں، سگار وغیرہ بھی ترتیب سے رکھے ہوتے تھے۔
اختر انصاری دہلوی کے دو مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
شباب نام ہے اس جاں نواز لمحے کا
جب آدمی کو یہ محسوس ہو جواں ہوں میں
رشید حسن خاں نے اختر انصاری کی شاعری سے متعلق لکھا ہے کہ رومانیت ان کے مزاج کا جزو اور طبیعت کا جوہر تھی۔ ان کی ابتدائی شاعری شدید رومانوی جذبات سے معمور ہے اور ان کی زندگی آخر تک اس کی آئینہ داری کرتی رہی ان کی رومانی شاعری میں جذبے کی صداقت اور حرارت کی آنچ آج بھی محسوس ہوتی ہے اور اس اعتبار سے ان کی شاعری کا ایک حصہ آج بھی توجہ طلب حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ فکر کی گہرائی ان کے یہاں کم اور بہت کم ہے، لیکن سچے جذبے اور شدید احساس کی نہیں۔
اختر انصاری دہلوی کی دو کتابیں ایک قدم اور سہی اور اردو افسانہ، بنیادی اور تشکیلی مسائل بعد از مرگ شائع ہوئیں۔ اختر انصاری نے غالب کی بعض مزاحیہ تحریروں کو انگریزی زبان میں بھی منتقل کیا۔ ادب اور تعلیمات کے ضمن میں اختر انصاری کی انگریزی تصانیف بھی قابلِ ذکر ہیں۔


