تازہ ترین

ملک میں معاشی استحکام کیلئےاصلاحاتی ایجنڈےپرگامزن ہیں، محمد اورنگزیب

واشنگٹن: وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ملک...

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اختر حسین جعفری، جنھیں فکر و نظر کی مکمل آزادی عزیز تھی!

’اختر حسین جعفری اپنی روشن خیالی اور انسان دوستی کے حوالے سے آمریت، فسطائیت اور مطلق العنانیت کا غیر مشروط دشمن ہے۔ اسے انسان کی فکر و نظر کی مکمل آزادی بے حد عزیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خود کو اپنے اہلِ وطن کی ذہنیتوں کی تہذیب پر مقرر کر رکھا ہے۔’ احمد ندیم قاسمی کے مضمون سے یہ اقتباس جدید اردو نظم کے بلند پایہ اور نہایت معتبر شاعر کی فکر اور شخصیت کا گہرا اور پُرتاثر خاکہ ذہن کے پردے پر ابھارتا ہے۔ اختر حسین جعفری کو اردو کے بیسویں صدی کا غالب بھی کہا گیا اور بعض نقادوں نے انھیں بیدل کے بعد ایک بلند پایہ تخلیق کار گردانا ہے۔

اختر حسین جعفری 3 جون 1992ء کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ لاہور میں‌ آخری سانسیں‌ لینے والے اختر اُن معدودے چند شعرا میں سے تھے جن کو بحیثیت نظم گو جو شہرت اور مقام حاصل ہوا، وہ بلاشبہ اس کے حق دار تھے۔ ان کا شعری مجموعہ آئینہ خانہ اردو شاعری میں فکری اور فنی پختگی کے ساتھ اپنے حسین لسانی پیکروں کے لیے جدید اردو شاعری کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اردو زبان و ادب کا مطالعہ اور غیرملکی ادب میں دل چسپی لینے کے ساتھ اختر حسین جعفری نظریات اور نئے خیالات سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور اپنی شاعری میں تازہ فکر، ندرتِ خیال کا اہتمام نہایت خوب صورتی سے کیا۔ ان کی شاعری میں استعارے نہایت خوبی سے اور جابجا بکھرے ہوئے ہیں جو ان کی شاعری کو سحر انگیز بناتے ہیں۔

اختر حسین جعفری کا تعلق ضلع ہوشیار پور سے تھا، انھوں نے 15 اگست 1932 کو دنیا میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم اپنے ضلع کی درس گاہ سے حاصل کی اور وظیفے کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ گجرات آگئے جہاں تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔ تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی میں قدم رکھنے والے اختر حسین جعفری نے سرکاری ملازمت کے دوران ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ حاصل کیا۔ اس عرصے میں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا۔ اختر حسین جعفری نے اردو شاعری کو نئی جہت سے روشناس کیا اور خوب داد سمیٹی۔

ممتاز نظم گو شاعر اختر حسین جعفری کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے شامل ہیں۔ آئینہ خانہ وہ مجموعۂ کلام ہے جسے آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے 2002 میں ان کے لیے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کا اعلان کیا تھا۔

اختر حسین جعفری کا یہ شعر دیکھیے

اس کی خوش بُو کے تعاقب میں نکل آیا چمن
جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

یہ نظم ملاحظہ کیجیے

"آخری پیڑ کب گرے گا”
زمیں کی یہ قوس جس پہ تو مضطرب کھڑی ہے
یہ راستہ جس پہ میں ترے انتظار میں ہوں
زمیں کی اس قوس پر افق پر قطار اندر قطار لمحات کے پرندے
ہمارے حصے کے سبز پتے سنہری منقار میں لیے جاگتی خلاؤں میں
اڑ رہے ہیں
زمیں کی اس قوس پر افق پر ہے نا بسر کردہ زندگی کی وہ فصل جس کا
ہمیں ہر ایک پیڑ کاٹنا ہے
یہ چاند جس پر قدم ہے تیرا
یہ شہد جس پر زباں ہے میری
یہ سبز لمحے یہ کرمک شب اسی گلستاں کے موسم ابر کے ثمر ہیں
جہاں ہواؤں کے تیز طوفان منتظر ہیں کہ آخری پیڑ
کب گرے گا

Comments

- Advertisement -