اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت جاری ہے، ریفرنس کا فیصلہ آج محفوظ کیے جانے کا امکان ہے۔
تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت جاری ہے۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کر رہے ہیں۔
گزشتہ سماعت میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیے تھے۔ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی جواب الجواب دے رہے ہیں۔
سردار مظفر کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور ان کے وکیل کا موقف مختلف ہے، نواز شریف نے حسن اور حسین کی پیش دستاویز کو تسلیم کیا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں حسن، حسین کی پیش دستاویزات کو انڈورس کیا۔ عدالت نے نواز شریف سے ان دستاویزات کے حوالے سے سوال کیا۔
انہوں نے کہا کہ استغاثہ نے عدالت کو مطمئن کرنا ہوتا ہے، استغاثہ نے کیس اسٹیبلش کرنا ہوتا ہے پھر بار ثبوت ملزمان پر ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ثابت کیا نواز شریف کے بیٹے بے نامی دار کے طور پر جائیداد کے مالک ہیں۔ نواز شریف جائیداد کے اصل بے نامی مالک ہیں، استغاثہ نےثابت کیا۔
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اثاثوں کی ملکیت کو دوسری جانب سے کبھی بھی رد نہیں کیا گیا۔ ملکیت ثابت ہونے کے بعد ملزم نے اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہوتی ہے۔ وکیل نے دلائل میں کہا کہ 1980 کے معاہدے، خطوط اور دستاویز پر انحصار نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ملزم نے اپنے بیان میں تمام باتوں کو تسلیم کیا، بیانات میں تضاد ہے۔ عدالت میں ثبوت نہیں دیا گیا کہ بچوں نے جائیداد اپنے ذرائع سے لی۔ ہم نے ثابت کیا بچے اپنا کوئی ذرائع آمدن نہیں رکھتے تھے۔
نیب پراسیکیوٹر کے دلائل کے دوران نواز شریف کے وکلا نے بار بار مداخلت کی جس جج برہم ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ آج کا دن نیب کا ہے، نیب نے جو کہنا ہے آج ان کی سنیں گے۔ خواجہ حارث نے جتنے دن دلائل دی ےنیب نے مداخلت نہیں کی۔
سردار مظفر نے مزید کہا کہ نواز شریف نے تقریر اور خطاب میں خاندان کی ذمہ داری لی۔ نواز شریف نے کہا ٹھوس ثبوتوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ جو ٹھوس ثبوتوں کے انبار لگے تھے وہ پیش کیوں نہیں کیے گئے۔ اب ثبوت پیش کرنے کا وقت آیا تو کہتے ہیں ہمارا ان سے تعلق نہیں۔ ’اس کو سیاسی تقریر نہیں سمجھا جائے گا‘؟
انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے کہا دبئی اور جدہ فیکٹریوں سے متعلق سارا ریکارڈ ہے۔ نواز شریف نے تقریر میں یہ نہیں کہا کہ میرا پراپرٹی سے تعلق نہیں، انہوں نے کہا کہ میرا پاناما پیپرز میں نام نہیں۔ ’خواجہ حارث کے حتمی دلائل اور نواز شریف کے بیان میں تضاد ہے‘۔
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ملزمان نے خود ایک منی ٹریل بتائی تھی ہم نے اس طرح اثاثے بنائے۔ ملزمان نے جو ذرائع بتائے ہم نے ان کی ہی تفتیش کرنی تھی۔ ہمارا دماغ تو نہیں خراب کہ ہم دوسرے ذرائع ڈھونڈتے، ہم ان ہی کے مؤقف کو لے کر چلے اور وہ غلط ثابت ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ جلا وطنی کے بعد کاروبار کے لیے ان کے پاس کوئی معلوم ذرائع نہیں تھے۔ پاکستان سے قانونی راستے سے کوئی رقم بیرون ملک نہیں بھیجی گئی۔
جج نے ریمارکس دیے کہ پھر پاکستان کا کیا مسئلہ ہے پھر تو سعودی عرب کا مسئلہ ہوگیا کہ وہاں کیسے کاروبار بنا۔
احتساب عدالت کے جج نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا نواز شریف صادق و امین نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کو ہم کیسے سچا مان لیں؟ وکیل صفائی کو اس اہم نکتے پر کل عدالت کو مطمئن کرنے کی ہدایت کردی گئی۔
اس سے قبل نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ حسین نواز کا بیرون ملک کاروبار اور اثاثے پاکستان میں ظاہر نہیں۔ غیر مقیم شہری کی وجہ سے بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنا لازم نہیں۔ استغاثہ نے بھی نہیں کہا کہ حسین نواز کا اثاثے ظاہر نہ کرنا غیر قانونی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے نہیں کہا انہیں بچوں کے کاروبار کا پتہ نہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ بچوں کے کاروباری معاملات سے تعلق نہیں۔ کیس یہ ہے کہ ایچ ایم ای اور العزیزیہ کے حوالے سے حسین نواز جوابدہ ہیں۔ دونوں کے حوالے سے نواز شریف سے وضاحت نہیں مانگی جاسکتی۔
وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سعودی عرب کو لکھے ایم ایل اے کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔ ضمنی ریفرنس میں کہا گیا کہ نواز شریف کے علاوہ بھی 5 افراد کو رقم منتقل ملی، رقم وصول کرنے والے مانتے ہیں ایچ ایم ای سے بھیجی گئی۔
انہوں نے کہا کہ نیب کی طرف سے ان افراد کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا۔ نیب کو ان سب سے پوچھنا چاہیئے تھا ان کے شیئر تو نہیں؟ تمام افراد ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے ملازم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الدار آڈٹ رپورٹ ہم نے پیش کی نہ ہی اس پر انحصار ہے، نیب نے صرف جے آئی ٹی کی تحقیقات پر انحصار کیا۔
جج نے کہا کہ حسین اور حسن نواز پیش ہو جاتے تو نیب کا کام کم ہوجاتا، پیشی کی صورت میں نیب کا کام صرف نواز شریف سے کڑی ملانا رہ جاتا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ حسین اور حسن نواز کا اعترافی بیان نواز شریف کے خلاف استعمال ہو سکتا تھا، حسن اور حسین نواز نے طارق شفیع کا بیان حلفی دفاع میں پیش کیا۔ طارق شفیع کا بیان حلفی میرے خلاف استعمال کرنا ہے تو جرح کا حق دیں۔