لاہور : چمٹے کی منفرد دھن پر سننے والوں کو مست کردینے والے معروف فوک گلوکارعالم لوہار کی آج 40ویں برسی منائی جارہی ہے، عالم لوہار کو سب سے زیادہ شہرت ہیر وارث شاہ گانے پر ملی۔
لوک گلوکار عالم لوہار3جولائی 1979 کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ بے مثل و بے بدل لوک فنکار عالم لوہار یکم مارچ 1928 کو گجرات کے ایک نواحی گاؤں آچھ گوچھ میں پیدا ہوئے، انہوں نے کم عمری سے ہی گلوکاری کا آغاز کردیا تھا۔
عالم لوہار کو چمٹا بجانے اور آواز کا جادو جگانے میں کمال کا فن حاصل تھا، ان کے گائے ہوئے پنجابی گیت آج بھی سماعتوں پر وجد طاری کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے، ان کی گائی ہوئی جُگنی آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔
عالم لوہار کا’’چمٹا‘‘ بھی ان کی ایک الگ پہچان بنا، وہ گانے کے دوران لے کو برقرار رکھنے کے لیے چمٹا استعمال کرتے تھے،
جُگنی اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکا۔
جُگنی کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور کی اردو اور پنجابی فلموں میں بھی جُگنی کو خصوصی طور پر شامل کیا گیا جبکہ جُگنی کی پکچرائزیشن بھی انہی پر ہوئی۔
جُگنی کے علاوہ عالم لوہار نے کئی اور منفرد نغمے تخلیق کئے جن میں اے دھرتی پنج دریاں دی، دل والا دکھڑا نئیں، جس دن میرا ویاہ ہو وے گا، قصّہ سوہنی ماہیوال کا گیت، وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔
عالم لوہار کی گائیکی کا انداز منفرد اور اچھوتا تھا جو اندرونِ ملک ہی نہیں بیرونِ ملک جہاں پنجابی اور اردو زبان نہیں سمجھی جاتیں وہاں بھی لوگ ان کی خوبصورت دُھنوں پر جھوم اٹھتے تھے، خصوصاً قصّہ ہیر رانجھا اور قصّہ سیف الملوک آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔
ان کی مقبولیت جس وقت برطانیہ کی ملکہ الزبتھ تک پہنچی تو انہوں نے اپنی25ویں سالگرہ کے موقع پر عالم لوہار کو خاص طور پر اپنے محل میں سننے کے لیے بلوایا۔ اس کے علاوہ بھارت میں پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی ان کی گائیکی سے متاثر ہوکر انہیں خاص طور پر مدعو کیا تھا۔
پاکستان کے سابق صدر جنرل ایوب خان بھی عالم لوہار کے پرستاروں میں شامل تھے۔ انہوں نے عالم لوہار کو’’شیر پنجاب‘‘ کا خطاب بھی دیا۔حکومت پاکستان نے ان کی فنی خدمات پر پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دیا لیکن یہ اعزاز ان کی وفات کے بعد دیا گیا۔
تین جولائی 1979 کو پنجاب کے ایک غیر معروف قصبے مانگا منڈی کے پاس ٹریفک حادثے میں ان کا انتقال ہوا، جس کے بعد انہیں لالہ موسیٰ میں سپردِ خاک کیا گیا۔