تازہ ترین

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

ملک میں معاشی استحکام کیلئےاصلاحاتی ایجنڈےپرگامزن ہیں، محمد اورنگزیب

واشنگٹن: وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ملک...

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

عظیم سائنس دان آئن اسٹائن کی وصیّت اور زندگی کی تلخیاں

تاریخ میں البرٹ آئن اسٹائن کو سب سے بڑا ماہرِ طبیعیات مانا جاتا ہے جس کے سائنسی مفروضوں اور تجربات نے فزکس ہی نہیں‌ دنیائے سائنس کو ایک نئے راستے پر ڈال دیا جسے اصطلاح میں‌ ماڈرن فزکس کہا گیا۔ یہ بنیادی طور پر ’تھیوری آف جنرل ریلٹوٹی‘‘ اور ’’کوانٹم فزکس‘‘ کے دو ستونوں پر کھڑی تھی۔

اوّل الذّکر آئن اسٹائن کا مفروضہ اور کوانٹم فزکس اس کی ایک دریافت ’’فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ‘‘ کا نتیجہ کہلاتی ہے۔ آئن اسٹائن کا سائنسی نظریہ اور اس کی مساوات (E= mc2) کی صورت میں دنیا بھر میں‌ مشہور ہے۔ اِس نظریے کی رُو سے مادّہ اور توانائی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور جنھیں آپس میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

کہتے ہیں کہ وہ ایک روز دفتر کی کھڑی سے باہر جھانکتے ہوئے ایک بلند و بالا عمارت کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ کسی شخص کو اِس عمارت سے نیچے دھکیل دیا جائے تو کیا وہ اپنے آپ کو گرتا ہوا محسوس کرے گا؟

معاً اُسے خیال آیا کہ اگر ہوا کی رگڑ نہ ہو تو وہ شخص اپنے آپ کو گرتا ہوا محسوس نہیں کرے گا۔ وہ اپنے سوال کا جواب پاکر بہت خوش ہوا۔ 1920 میں اُس نے لکھا کہ وہ میری زندگی کی خوش گوار ترین سوچ تھی۔

یہی وہ مفروضہ اور خیال تھا جس نے آئن اسٹائن پر گریوٹی (کششِ‌ ثقل) کو آشکار کیا تھا۔ بعد میں اس کی سب سے اہم تھیوری سامنے آئی۔ 1905ء میں آئن اسٹائن نے تھیوری آف اسپیشل ریلٹوٹی پیش کی اور 1916ء میں تھیوری آف جنرل ریلٹوٹی پیش کی۔ اس کے تین سال بعد انگریز ماہرِ طبیعیات ارتھر ایڈنگٹن نے 1919ء میں اس کا عملی تجربہ کیا اور کام یابی کے بعد اس تھیوری کی تصدیق کر دی۔ نظریۂ عمومی اضافیت سائنسی میدان میں آئن اسٹائن کی سب سے بڑی کام یابی تھا۔

جرمنی میں ہٹلر برسرِاقتدار آیا تو آئن اسٹائن کو امریکا ہجرت کرنا پڑی اور وہ ’’برلن اکیڈمی آف سائنس‘‘ میں اپنی نوکری چھوڑ کر چلا گیا۔ 1940ء میں اس طبیعیات دان کو امریکی شہریت بھی مل گئی۔

آئن اسٹائن نے اپنی زندگی میں 300 سے زائد مقالے لکھے اور اس کی لگ بھگ ڈیڑھ سو تحریریں اور کتابیں غیر سائنسی موضوعات پر ہیں۔ اس کے خطوط بھی مشہور ہیں جنھیں اس کی وفات کے بعد نیلام کیا گیا۔ آئن اسٹائن کی ذاتی زندگی عشق و رومان، ازدواجی الجھنوں کے ساتھ اولاد کو لاحق امراض اور ذہنی و جسمانی مسائل کا سامنا کرتے گزری۔ تاہم اس کے ساتھ وہ سائنس کے میدان میں‌ غور و فکر اور تجربات بھی کرتے رہے۔

وہ 1879ء میں جرمنی میں پیدا ہوا تھا۔ آئن اسٹائن کے والد کا نام ہَرمین آئن اسٹائن اور والدہ کا نام پاؤلِین کوچ تھا۔ والد کاروباری تھے جو 1880 میں جرمنی کے شہر میونخ منتقل ہوئے اور وہاں اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ایک کمپنی کی بنیاد رکھی۔ یہ بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی تھی۔ تاہم ایک وقت آیا جب انھیں‌ بجلی کی تیّاری اور فراہمی میں ایک مسئلے کے بعد خسارے اور بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں‌ کمپنی کو بیچنا پڑ گیا۔ ان کا خاندان اٹلی چلا گیا، لیکن آئن اسٹائن کو میونخ ہی میں زیرِ تعلیم چھوڑ دیا گیا۔

اس کی ذہنی نشو و نما سست تھی، وہ دو سال کی عمر میں بمشکل ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بولنے لگا، لیکن خاندان متفق تھا کہ یہ بچّہ شاید ہی کوئی ڈگری حاصل کر سکے گا، اگرچہ اس حوالے سے کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جن کی ایک بڑی وجہ بچپن کے متعلق آئن اسٹائن کے اپنے متنازع بیانات بھی ہیں، مگر اس کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آنے والے اس کے دادا کے خطوط سے پتا لگتا ہے کہ وہ عام بچّوں کی طرح چالاک اور ہوشیار تھا، مگرابتدا میں اسے بولنے میں دشواری کا سامنا ضرور رہا تھا۔

یہ عادت ساری عمر اس کے ساتھ رہی، جس کے باعث وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا اور اپنی بات کو متعدد بار دہرایا کرتا تھا، اس بارے میں خود آئن اسٹائن کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سوچ یا خیال اچانک ذہن میں وارد ہو کر اسے بہت زیادہ متاثر کرتا تو وہ اسے بار بار دہرا تا تھا۔

1921ء میں آئن اسٹائن کو اس کی تحقیق پر نوبل پرائز دیا گیا تھا۔ دنیا کو سائنس میں‌ بے پناہ ترقّی اور اپنے مفروضوں کی بنیاد پر طالبِ علموں اور ماہرین کے دماغوں کو نئی سمت دکھانے والے نے خود کو پیوندِ خاک بنانے کے بجائے ہوا کے دوش پر روشنی کی رفتار سے سفر کرتے رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ 1955ء میں‌ چل بسا اور اس عظیم سائنس دان کی وصیت کے مطابق اس کا مردہ جسم جلا دیا گیا، بعد میں اس کی راکھ کسی نامعلوم مقام پر بکھیر دی گئی تھی۔ اگر اس کی وصیّت پر عمل نہ کیا جاتا تو آج وہ کہاں دفن ہوتا؟ کیا جرمنی میں اس کا مدفن بنایا جاتا یا پھر امریکا میں اس عظیم سائنس دان کی قبر پر عقیدت مند پھول رکھنے جاتے؟

Comments

- Advertisement -