تازہ ترین

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

الیگزینڈر برنس: افغان تاجر کے روپ میں جاسوسی کرنے والا انگریز افسر

وادیِ مہران میں قدیم دور سے تہذیب اور ثقافت کا سفر جاری ہے۔ یہاں صدیوں سے زندگی رواں دواں ہے اور وہ دریا بھی آج تک بہہ رہا ہے جسے تاریخ کے صفحات میں‌ ہندو، سندھو، سندھ، اٹک یا نیلاب کے نام سے پکارا گیا ہے۔

دنیا کی قدیم ترین تہذیبیں اسی دریا کے دونوں کناروں پر پروان چڑھیں۔ ہم اسے دریائے سندھ کہتے ہیں۔ مشہور ہے کہ صدیوں قبل سکندرِ اعظم اور ابنِ بطوطہ نے بھی اس دریا کی سیر کی تھی، لیکن الیگزینڈر برنس وہ انگریز جاسوس، محقق، تاریخ نویس اور سیّاح تھا جس نے علمی و تحقیقی مقصد کے لیے دریائے سندھ کی سیر کی اور اسے پہلی بار تحریری طور پر محفوظ کیا۔

الیگزینڈر برنس ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک افسر تھا جسے ہندوستان کی تاریخ میں جاسوس کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ وہ اسکاٹ لینڈ کا باسی تھا۔ اس نے 1805ء میں ’مونٹروس‘ شہر میں آنکھ کھولی۔ الیگزینڈر برنس نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوجوانی میں برطانوی کمپنی کی ملازمت اختیار کی اور اسے بمبئی بھیج دیا گیا۔ ابتدائی طور پر اسے ہندوستان کے ساحلی شہر سورت میں ہندی زبان کا ترجمان مقرر کیا گیا تھا۔

وہ ذہین، قابل اور زبانیں‌ سیکھنے کا شوقین تھا۔ اس نے ہندوستان میں جلد فارسی سیکھ لی بلکہ اس پر عبور حاصل کر لیا۔ اس کام یابی نے برنس کو عدالت میں فارسی سے دستاویز کا مترجم مقرر کروایا۔ کمپنی نے الیگزینڈر برنس کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اسے ’ڈپٹی اسسٹنٹ کوارٹر ماسٹر جنرل‘ کے عہدے پر فائز کردیا۔ اس وقت وہ صرف 21 سال کا تھا۔ اسی زمانے میں‌ اس نے ہندی کے علاوہ بھی کئی مشرقی زبانیں لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں مہارت حاصل کرلی تھی۔

1831ء میں اس نے کمپنی کی جانب سے دریائے سندھ کے داخلی راستوں کا سروے مکمل کیا تھا۔ برنس نے اس کام کے لیے اس وقت کے تالپور حکم راں اور کمپنی سے دریائے سندھ میں سفر کرنے کی اجازت لی تھی۔ اس سروے کے دوران الیگزینڈر برنس نے بحیثیت تاریخ نویس بھی اپنے مقاصد کو مدِ نظر رکھا اور دریا کے بہاؤ کے بالکل اختتامی علاقوں کے نقشے بھی مرتب کیے۔ وہ اس سفر کو مکمل کر کے 1831ء میں لاہور پہنچا تھا اور بہت خوش تھا، کیوں کہ اس نے سرکاری کام ہی مکمل نہیں‌ کیا تھا بلکہ ایک تاریخی اور سیاحتی مقصد بھی پورا ہوگیا تھا۔ اس نے اپنی سروے رپورٹ جمع کروائی، جس میں سندھ سمیت پورے ہندوستان کی مکمل رپورٹ مع نقشہ جات شامل تھی۔ کہتے ہیں یہ رپورٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہندوستان پر قبضہ کرنے کی غرض پوری کرنے میں‌ بہت مددگار ثابت ہوئی۔

اس کے ایک برس بعد وہ 1832ء اسے افغانستان کا مشن سونپا گیا جس میں اسے انتہائی خطرناک علاقوں کا سروے جو حقیقتاً‌ کمپنی کے لیے ”جاسوسی“ تھا، کا کام انجام دینا تھا۔ اسے محتاط اور غیر محسوس طریقے سے اپنا کام انجام دینے کے لیے تیّار کیا گیا تھا، کیوں کہ ان علاقوں میں کمپنی اور انگریزوں کے لیے بہت خطرہ تھا اور وہاں بغاوت کی فضا تھی۔

الیگزینڈر برنس نے اس کام کے لیے بھیس بدل لیا اور افغان تاجر کا روپ میں روانہ ہوا۔ وہ فارسی اور چند مقامی زبانیں‌ جانتا تھا جس کے بعد اس نے حلیہ ہی نہیں عادات و اطوار بھی افغان شہری جیسی اپنا لیں۔ وہ اس کی مشق کرتا رہا اور اپنے اس سفر میں بنگالی فوج کے ایک سرجن ’سر جیمس جیراڈ‘ کو بھی شریک کرلیا۔ برنس کو اس وقت رنجیت سنگھ کی جانب سے فوجی دستے دیے گئے تھے جن کے ساتھ وہ پشاور، جلال آباد اور کابل سے ہوتے ہوئے، لکھنؤ اور بخارا تک جا پہنچا اور کام یابی سے اپنا کام انجام دیتے ہوئے بمبئی لوٹ آیا۔ اس پورے سفر کی سروے رپورٹ اور تمام تحقیقی کام ”دی نیویگیشن آف دی انڈس اینڈ جرنی بائی بلخ اینڈ بخارا“ کے نام سے کمپنی نے شایع کروایا اور اس کے فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں تراجم بھی کرائے گئے۔

برنس کے اس کام کی انگلستان میں بھی بہت پذیرائی ہوئی۔ اسے ہندوستان میں اہم فوجی ذمہ داریاں نبھانے کو دی گئیں اور اس نے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی۔ لیکن اب وہ ایک جاسوس مشہور ہو چکا تھا اور افغانستان کے باغی گروہ موقع کی تلاش میں تھے جب اس سے بدلہ چکا سکیں۔ وہ کابل میں‌ رہائش پذیر تھا جہاں اس کی حفاظت کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔

2 نومبر 1841ء کو باغی افغانوں نے کابل میں اس کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا، اور الیگزینڈر برنس، اس کے اہلِ خانہ اور دیگر انگریز افسران کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ برنس کے گھر کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ یوں افغانوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریزوں‌ سے بدلہ لے لیا۔

الیگزینڈر برنس کو اس وقت کے ہندوستان اور پورے خطّے میں انگریزوں کا جاسوس ہی لکھا اور کہا جاتا ہے، لیکن وہ پہلا تاریخ نویس ہے جس نے دریائے سندھ کی سیر کو تحریری شکل میں محفوظ کیا اور اس سے متعلق معلومات و حقائق کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

Comments

- Advertisement -