تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

میلہ گھومنی والے علی عباس حسینی

علی عباس حسینی اردو افسانہ نگاری کے میدان میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ وہ ادبی تخیلقات میں ہئیت و تیکنیک میں نئے تجربات کے ساتھ اپنے اظہار کی انفرادیت اور اسلوب کی خوب صورتی کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔

علی عباس حسینی نے بحیثیت ادیب اپنے متنوع موضوعات میں اردو زبان کو بہت خوب صورتی سے برتا ہے۔ نثری ادب کی مختلف اصناف میں ان کی تحریریں اور کتب یادگار ہیں۔ انھوں نے افسانہ، ناول، ڈرامہ، تاریخ اور تذکرہ نویسی کے علاوہ تنقید بھی لکھی جب کہ ایک مترجم کی حیثیت سے بھی ان کی ادب میں‌ اہمیت ہے۔

اردو کے اس ادیب کا منفرد اور دل نشیں طرزِ تحریر ان کی نگارشات کی پذیرائی کا باعث رہا ہے۔ علی عباس حسینی 3 فروری 1897ء کو غازی پور، بہار میں پیدا ہوئے تھے اور لکھنؤ وہ شہر تھا جہاں‌ آج ہی کے دن 1969ء میں‌ ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لیں۔

1919ء میں کیننگ کالج لکھنؤ سے بی۔ اے کے بعد پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے 1924ء میں ایم۔ اے کی سند حاصل کی۔ تدریس ان کا وظیفہ رہا اور 1954ء میں حسین آباد کالج لکھنؤ سے بطور پرنسپل ریٹائر ہوئے۔

علی عباس حسینی کو بچپن سے ہی قصے کہانیوں میں دل چسپی تھی۔ انھوں‌ نے الف لیلی کے قصائص، فردوسی کا شاہ نامہ، طلسم ہوش ربا اور اردو کے افسانوی ادب کا مطالعہ کیا اور اسی دوران لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ 1917ء میں ان کا پہلا افسانہ "غنچۂ ناشگفتہ” کے عنوان سے ضبظِ تحریر میں آیا۔ 1920ء میں "سر سید احمد پاشا” کے قلمی نام سے پہلا رومانوی ناول "قاف کی پری” لکھا تھا۔ شاید کہ بہار آئی” علی عباس حسینی کا دوسرا اور آخری ناول تھا۔

ان کے افسانوں کے متعدد مجموعے شایع ہوئے جن میں رفیقِ تنہائی، باسی پھول، کانٹوں میں پھول، میلہ گھومنی وغیرہ شامل ہیں۔ "ایک ایکٹ کے ڈرامے” ان کے ڈراموں پر مشتمل کتاب ہے۔

علی عباس حسینی نے فکشن کے نقاد کے طور پر بھی شناخت بنائی۔ ان کی کتاب "ناول کی تاریخ و تنقید” ایک مفصل اور لائقِ مطالعہ تنقید ہے۔

Comments

- Advertisement -