تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

شاہ صاحب سے ملاقاتیں

محمد کاظم ایک قد آور علمی و ادبی شخصیت تھے قدیم اور جدید عربی ادب پر گہری نظر رکھنے والے محمد کاظم ایک شاعر، بلند پایہ محقق، نقّاد اور مترجم کی حیثیت سے پہچانے گئے۔

اردو زبان و ادب، تاریخ و فلسفہ کے شیدا اور باذوق قارئین سیّد علی عباس جلال پوری کے نام سے بھی واقف ہوں گے، جو ایک نادرِ‌ روزگار شخصیت تھے۔ سیّد علی عباس جلال پوری بھی ایک محقّق، مؤرخ اور نقّاد تھے اور فلسفہ کے ماہر اور استاد کے طور پر ممتاز ہوئے۔ محمد کاظم کی یہ تحریر اسی نابغۂ روزگار سے متعلق ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

"سیّد علی عباس جلال پوری سے میرا غائبانہ تعارف اردو رسالے ”ادبی دنیا“ کے صفحات پر ہوا۔”

"مولانا صلاح الدّین احمد کی زیرِ ادارت نکلنے والے اس رسالے میں خاصے معیاری علمی مضامین اور ادب شائع ہوتا تھا اور اس کے ٹائٹل پر دی ہوئی عبارت کے مطابق یہ اس وقت ”دنیا کا سب سے ارزاں اور اردو کا سب سے درخشاں“ رسالہ تھا۔ یہ بات بڑی حد تک صحیح تھی، اس لیے کہ تین ساڑھے تین سو صفحات کے اس رسالے کی قیمت صرف ایک روپیہ تھی۔ اس رسالے میں علّامہ اقبال پر، نیز فلسفے اور خرد افروزی کے موضوع پر سید علی عباس کے بیشتر مضامین پڑھ کر میرے ذہن پر ان کے مطالعے کی وسعت اور ان کے علمی تبحّر کا گہرا نقش بیٹھا۔”

” ”ادبی دنیا“ ابھی اپنے آخری دور میں تھا کہ ادھر جناب احمد ندیم قاسمی نے اپنا ادبی رسالہ ”فنون“ جاری کیا۔ (رسالے کا اجرا یقیناً کسی ساعتِ سعید میں ہوا ہو گا کہ بہت سے نشیب و فراز اور مالی دشواریوں کے باوجود یہ اللہ کے فضل سے ابھی تک زندہ ہے۔) اب شاہ صاحب ”فنون“ میں لکھنے لگے اور زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ ”فنون“ کے دفتر میں ان سے گاہے بگاہے ملاقات بھی رہنے لگی۔ ”

"میں نے جب ان کو پہلی بار دیکھا تو ان کی شخصیت مجھے ان کے مقالات کی طرح سنجیدہ، رکھ رکھاؤ والی اور گمبھیر لگی۔ وہ عموماً کوٹ پتلون پہنتے اور ٹائی لگاتے اور سَر پر گہرے چاکلیٹی رنگ کی قراقلی ٹوپی رکھتے تھے۔ گندمی رنگت اور موزوں ناک نقشے کے ساتھ وہ جوانی میں خاصے قبول صورت رہے ہوں گے۔ ان کے نقوش میں سب سے نمایاں ان کی غلافی آنکھیں تھیں جو ان کے چہرے کو پُرکشش تو بناتی ہی تھیں، اس کے ساتھ ان کے وقار میں بھی اضافہ کرتی تھیں۔ نکلتے ہوئے قد اور اکہرے تنے ہوئے جسم کے ساتھ وہ تیر کی طرح سیدھا چلتے تھے۔ ان کی آواز میں نئے سکّے کی سی کھنک تھی اور ان کے بات کرنے کے انداز میں ایسا تیقّن اور اعتماد ہوتا تھا کہ ان کے منہ سے نکلی ہوئی کوئی بات بھی ہلکی یا بے مقصد نہیں لگتی تھی۔ وہ اگر روزمرہ کی گپ شپ بھی کر رہے ہوتے تو یوں لگتا جیسے ان کی بات سوچ کے عمل سے گزر کر باہر آئی ہے۔”

"”فنون“ کا دفتر جب تبدیل ہو کر انار کلی کے اندر بمبئی کلاتھ ہاؤس کے سامنے ایک چوبارے پر آگیا تو یہاں رسالے میں لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کی محفل جمنے لگی۔ یہ پہلے تو کچھ بے قاعدہ رہی، پھر یہ باقاعدگی کے ساتھ ہر جمعہ کے روز ہونے لگی۔ اس روز دفتروں اور کالجوں میں آدھے دن کی چھٹی ہوا کرتی تھی اور ہم سب ”فنون“ کے دفتر میں آجاتے۔”

"مدیر ”فنون“ کی ایک بڑی سی جہازی میز کے بائیں طرف کرسیوں پر سید علی عباس جلالپوری، رشید ملک، راقمُ الحروف، محمد خالد اختر اور کبھی کبھی پروفیسر شریف کنجاہی بیٹھے ہوتے۔ میز کے سامنے بھی آٹھ دس نشستیں ہوتی تھیں، جن پر شعراء و ادباء کی نئی نسل کے افراد ٹکے رہتے۔ ادیبوں اور شاعروں کی اس محفل میں ہر طرح کے موضوع زیرِ بحث آتے، جدید و قدیم ادب پر اظہارِ خیال ہوتا۔ ”فنون“ میں اور دوسرے رسالوں میں چھپنے والی چیزوں پر رائے زنی ہوتی اور شاہ صاحب کی موجودگی اس بات کی ضمانت ہوتی کہ مجلس میں سنجیدگی کا اعتبار قائم رہے گا۔ اگر کسی متنازع معاملے میں تبادلۂ خیالات کرتے ہوئے حاضرین میں اختلافات کی صورت پیدا ہو جاتی اور بحث میں کچھ گرمی آجاتی تو لوگ شاہ صاحب کی طرف دیکھتے اور وہ اپنی رائے ایسے اِذعان و یقین کے ساتھ دیتے کہ مسئلہ زیرِ بحث پر مزید کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہتی…. سہ پہر کو جب یہ محفل برخاست ہوتی تو نیچے اتر کر شاہ صاحب میری گاڑی میں اگلی نشست سنبھال لیتے اور ہم لوگ ان کو چھوڑنے کرشن نگر سے گزر کر ساندہ جا نکلتے، جہاں ان کا گھر تھا۔ شاہ صاحب کے ساتھ ہفتہ وار ملاقات کا یہ سلسلہ کئی برس تک جاری رہا۔”

"ہمارے اس ملک میں صحیح معنوں میں کثیرُالمطالعہ لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو ہم جانتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا انکشاف ہمیں ان کی تحریریں پڑھ کر ہوتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ سیّد علی عباس جلال پوری ان کثیرُالمطالعہ لوگوں کی اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے بہت پڑھا تھا اور جو پڑھا تھا اس کے بارے میں سوچ بچار کیا تھا ور اس کو ہضم کر کے اپنی ذہنی و فکری وجود کا جزو بنایا تھا۔”

Comments

- Advertisement -