تازہ ترین

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

اسلام آباد : صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے...

وہ غیر معمولی اعصابی بیماری جس کا نام ایک مقبول ناول سے ماخوذ ہے

لیوس کیرول وہ قلمی نام ہے جس سے لگ بھگ ڈیڑھ سو برس قبل ’ایلس اِن ونڈر لینڈ‘ (Alice in Wonderland) نامی کتاب شایع ہوئی تھی اور آج بھی دنیا بھر میں‌ مقبول ہے۔ یہ ایک ناول ہے جسے بچّے شوق سے پڑھتے ہیں اور اس کہانی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس پر کئی ڈرامے اور فلمیں بنائی جا چکی ہیں۔

ناقدین نے اسے ایک ادبی شہ پارہ بھی کہا ہے جس کا قاری خود کو حیران کُن واقعات میں ڈوبتا اور ایک عجیب دنیا کی مختلف مخلوقات کے درمیان پاتا ہے۔ چارلس ڈاج سن کو اس کا مصنّف بتایا جاتا ہے جس نے قلمی نام سے اپنی یہ کہانی 1865ء میں شایع کروائی تھی۔ اس کا مرکزی کردار دس برس کی ایلس لڈل اور اس کی دو بہنیں ہیں جنھوں نے انوکھی دنیا کے حیران کن واقعات کو ہمارے سامنے رکھا ہے۔

اس کہانی کے مصنّف اور اس کے کرداروں کے اس تذکرے کے بعد اب ہم اس بیماری کے بارے میں جانتے ہیں جو اسی مختصر ناول کے نام سے موسوم ایک اعصابی مسئلہ ہے۔ اسے ایلس اِن ونڈر لینڈ سنڈروم (Alice in Wonderland syndrome) کہا جاتا ہے اور یہ نام جان ٹوڈ نے تجویز کیا تھا۔ وہ ایک انگریز ماہرِ نفسیات تھا۔

جان ٹوڈ نے 1955 میں لیوس کیرول کی کتاب کے مرکزی کردار ایلس کو ذہن میں‌ رکھتے ہوئے اس طبّی پیچیدگی کو یہ نام دیا تھا، دراصل کہانی میں‌ وہ لڑکی ایسے حالات سے گزرتی ہے جس میں اسے اپنے اردگرد موجود اشیا اور مخلوق کی شکل اور جسامت بگڑی ہوئی نظر آتی ہے۔

اسے اکثر ماہرین نے ایک اعصابی بیماری قرار دیا ہے اور اسے ٹوڈز سنڈروم کے نام سے بھی شناخت کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ ایک غیر معمولی اعصابی پیچیدگی ہے، اس میں کسی انسان کا بصری تأثر اس طرح‌ خراب ہوسکتا ہے کہ وہ اجسام کو ان کے حقیقی نہیں مماثل روپ میں‌ دیکھنے لگتا ہے۔ اسے کسی بھی جسم کا سائز یکسر مختلف دکھائی دے سکتا ہے جس میں چہرہ، ہاتھ اور پیر شامل ہیں۔ اسے یہ اعضا چھوٹے یا بہت بڑے نظر آنے لگتے ہیں۔

عام طور پر اسے دردِ شقیقہ جیسی حالت تصوّر کیا جاتا ہے، لیکن اس میں‌ مبتلا شخص کسی جسم کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان میں‌ بگاڑ دیکھتا ہے یا وہ انھیں‌ غیر متناسب پاتا ہے۔ ایسے مریض فریبِ نظر اور وقت گزرنے کے احساس کی بھی شکایت کر سکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس طبّی پیچیدگی کا اب تک کوئی مؤثر اور مکمل علاج دریافت نہیں کیا جاسکا ہے۔ تاہم، ایک ماہر معالج دردِ شقیقہ سے نجات کے لیے کوشش اور تدابیر اختیار کرتا ہے جب کہ دوا کے ساتھ مریض کو ضروری ہدایات دے کر اس اعصابی بیماری کو ختم کرنے میں‌ مدد دیتا ہے۔

Comments

- Advertisement -