تازہ ترین

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

یومِ‌ پیدائش: علّامہ اقبال کی زندگی اور افکار

علّامہ اقبال اردو کے پہلے شاعر ہیں جن کا کلام ملّی تشخص، دینی فکر اور فلسفۂ خودی سے آراستہ ہے۔ اسی بنیاد پر انھیں پیامبر شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ انھیں ہم حکیمُ الاّمت اور شاعرِ مشرق کے نام سے بھی پہچانتے ہیں۔

اقبال کی وجہِ شہرت
ڈاکٹر علّامہ محمد اقبال کی شخصیت اور ان کے کلام نے برصغیر میں‌ انھیں ایک خاص پہچان دی۔ وہ ہندوستان کے مسلمانوں‌ کے خیرخواہ، نوجوانوں کے راہ نما اور مصوّرِ پاکستان مشہور ہوئے۔ اقبال نے اپنی شاعری اور افکار کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کی منزل کے لیے راہ نمائی کی اور راستہ بتایا۔

مختصر سوانح
9 نومبر 1877ء کو محمد اقبال نے شیخ نور محمد کے گھر میں آنکھ کھولی۔ سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے اقبال نے ابتدائی تعلیم مکمل کی اور 1899 میں فلسفہ میں‌ ایم اے کیا جب کہ اورینٹل کالج لاہور میں عربی کے استاد مقرر ہوئے۔ 1905 میں وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور 1907 میں جرمنی کی جامعہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ 1908ء میں وہ واپس لاہور آئے اور وکالت کا آغاز کیا۔ ساتھ ہی گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے پروفیسر کی حیثیت سے بھی مصروف ہوگئے۔ علامہ اقبال کو 1923 میں برطانوی حکومت کی جانب سے "سر” کا خطاب دیا گیا تھا۔

فکرِ‌ اقبال کا محور
اقبال زمانہ شناس اور عہد ساز شاعر تھے۔ انھوں نے مشرق و مغرب کے سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور روحانی حالات کا گہرا مشاہدہ اور مطالعہ کیا اور مشرق کو اس کی بدحالی اور خاص طور پر مسلمانانِ ہند کو ان کی کم زوریوں اور خامیوں پر خبردار کرتے ہوئے اپنی شاعری کے ذریعے بالخصوص نوجوانوں‌ کو علم و عمل کی ترغیب دی۔

اقبال نے مسلمانوں کو حیات و کائنات کو مسخر کرنے اور اسلاف کے فراموش کردہ کردار اور ورثے کو پانے اور اس کا احیا کرنے کی طرف مائل کیا۔

شاعری کا ابتدائی دور اور مقصد
اقبال نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ 1890ء کے ایک طرحی مشاعرہ میں اقبال نے محض 17 سال کی عمر میں اپنے کلام سے اس وقت کے جیّد شعراء کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔

اقبال کی شاعری میں مقصدیت کو اوّلیت حاصل ہے۔ وہ اپنے کلام سے اقوامِ مشرق پر چھائی کاہلی اور جمود کو توڑنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ عشق، عقل، مذہب، زندگی اور فن کو اک مخصوص زاویہ سے دیکھتے تھے۔

درس و پیام
ان کی نظموں میں حب الوطنی کی نمایاں تصویر نظر آتی ہے۔ یہ شاعری اس دور کے ہندوستان اور انگریز راج میں وہاں کے سیاسی اور سماجی حالات میں مسلمانوں کے لیے ایک پکار تھی، بیداری کی لہر تھی۔ علّامہ اقبال کی وہ نظمیں جن میں ہمیں حب الوطنی اور امت مسلمہ کو دعوت عمل کا درس ملتا ہے ان میں ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، ترانۂ ملّی، وطنیت، خطاب بہ نوجوا نانِ اسلام، ہلالِ عید، آفتاب، تصویرِ درد، ترانۂ ہندی شامل ہیں۔

شاعرِ مشرق کے کلام میں‌ خودی کا فلسلفہ متاثر کن ہے، انھوں نے پرندوں کی معرفت نہ صرف انسانی جذبات کو خوبی سے پیش کیا بلکہ اس کے ذریعے کئی انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل کا راستہ بتایا ہے۔ شاہین کو انھوں نے شاعری میں خاص طور پر پیغام کا ذریعہ بنایا ہے اور کئی پرندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے خاص طور پر مسلمان نوجوانوں کو فکر و عمل پر آمادہ کیا ہے۔

علّامہ اقبال کا کلام دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور ان کے کلام کے کئی مجموعے شایع ہوئے۔

علّامہ اقبال کی شاعری کے چار مجموعے بانگ درا، بال جبرئیل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز شائع ہوئے۔

Comments

- Advertisement -