شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی کئی نظمیں آپ نے پڑھی ہوں گی جن سے بچّوں کی تعلیم و تربیت مقصود ہے اور ان کا وہ کلام بھی جس میں انھوں نے نوجوانوں کو مخاطب کیا ہے، لیکن آپ نے علّامہ اقبال کی غزلیں کم ہی پڑھی ہوں گی۔
اقبال نے جس زمانے میں شعر کہنا شروع کیا تھا، اس وقت جہانِ سخن میں ہر طرف غزل کا بول بالا تھا۔ میر اور داغ کا چرچا تھا اور انہی کا رنگ اس صنفِ سخن پر حاوی تھا۔ اس زمانے میں اقبال کا غزل کی طرف مائل ہونا فطری تھا۔ آپ بھی شاعرِ مشرق کا زورِ تخیل اور رنگِ تغزل دیکھیے۔
علامہ اقبال کی اس غزل کا مطلع تو زباں زدِ عام ہے۔ غزل کی اس لڑی کے یہ اشعار آپ کے ذوق کی نذر ہیں۔
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنّت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
اقبال کی یہ غزل بھی سہلِ ممتنع کی ایک مثال ہے۔
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرزِ انکار کیا تھی
کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی
ایک اور غزل پڑھیے۔
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظّارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے
واعظ کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
مانندِ خامہ تیری زباں پر ہے حرفِ غیر
بیگانہ شے پہ نازشِ بے جا بھی چھوڑ دے
لطفِ کلام کیا جو نہ ہو دل میں دردِ عشق
بسمل نہیں ہے تُو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے